توہم پرستوں کے لیے کالی بلی اور چھینک کا آنا نحوست کی علامت

l شیر کی خالہ بلی سے کوئی نقصان نہیں ، چھینک سے انسان کو جراثیم سے نجات
l ملک میں توہم پرستی کا فروغ اور معقولیت پسندی کی مخالفت
دوسری قسط
حیدرآباد ۔ 13 ۔ جولائی : ( سیاست نیوز ) : آزادی کے بعد ہندوستان نے کافی ترقی کی ہے ۔ خاص کر سائنس و ٹکنالوجی اور طب کے شعبوں میں ہمارے ملک کی ترقی مثالی رہی ہے ۔ تعلیم کے شعبہ میں ہندوستانیوں کی صلاحیتوں کو ساری دنیا نے تسلیم کیا ہے ۔ امریکہ کے سابق صدر بارک اوباما نے ہندوستان کے معیار تعلیم کی ستائش کرتے ہوئے واضح طور پر یہ کہا تھا کہ امریکی بچوں کو ہندوستانی اور چینی بچوں سے مسابقت درپیش ہے ۔ ان کے بیان کا مطلب یہ تھا کہ ہندوستانی اور چینی بچے بڑے ہوشیار ہوتے ہیں ۔ ریاضی (میتھمٹکس ) اور سائنس کے علاوہ مختلف زبانوں پر انہیں مہارت حاصل ہے ۔ اوباما نے بالراست طور پر یہ کہدیا کہ مستقبل میں ہندوستان اور چین اپنی تخلیقی صلاحیتوں اور قابل ذہنوں کے باعث سپرپاورس ہوں گے ۔ 2011 کی مردم شماری میں ہندوستانیوں میں پائی جانے والی خواندگی کی شرح 74 فیصد بتائی گئی ۔ ہمارے وطن عزیز کی کئی ریاستوں میں خواندگی کی شرح صد فیصد ہے ۔ ہندوستانی تعلیمی اداروں و جامعات کے معیار کو بھی ساری دنیا میں تسلیم کیا جاتا ہے ۔ اس کے باجود وزیراعظم ، سابق وزرائے اعظم ، مرکزی و ریاستی وزراء دہلی سے لے کر گلی کے لیڈر ، یونیورسٹیز چانسلرس ، پروفیسروں ، لکچررس ، اساتذہ اور ریاستی چیف منسٹروں میں توہم پرستی کے جراثیم پائے جاتے ہیں تب ہی تو آئے دن ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے وزرائے اعظم موجودہ و سابق ڈھونگی باباؤں کے قدموں پر سر رکھتے ان کا آشیرواد حاصل کرتے دکھائی دیتے ہیں ۔ اکثر انتخابات میں امیدوار تانترکوں باباؤں اور عاملوں کے مشورہ پر ایک مخصوص دن پرچہ جات نامزدگی داخل کرتے ہیں ۔ اگر یہ بابائیں ان سے کہدیں کہ فلاں رنگ کا لباس زیب تن کریں تو وہ ان کے حکم پر بلا چوں و چرا عمل کرتے ہوئے اپنے لباس کا رنگ اسی طرح فوری تبدیل کردیتے ہیں جس طرح گرگٹ اپنا رنگ تبدیل کر دیتا ہے ۔ حد تو یہ ہے کہ ہمارے ملک کے ڈاکٹروں میں بھی توہم پرستی پائی جاتی ہے کچھ ماہ قبل مہاراشٹرا کے ایک ہاسپٹل میں ڈاکٹر نے خاتون کا علاج کرنے کے بجائے ایک بابا کی خدمت حاصل کی ۔ جس خاتون کو ادویات و آپریشن کی ضرورت تھی اس پر جھاڑ پھونک کی گئی ۔ نتیجہ میں ایک خاتون اس ڈاکٹر کی اندھی عقیدہ ، شیطانی عقیدہ اور توہم پرستی کا شکار ہوگئی ۔ حال ہی میں غازی آباد میں ایک شخص کو سانپ نے ڈس لیا اسے ہاسپٹل لے جانے کی بجائے 72 گھنٹوں تک مختلف جھاڑ پھونک کرنے والے تانترکوں اور باباؤں سے رجوع کیا گیا ۔ جنہوں نے اس شخص کے رشتہ داروں سے متاثرہ کی زندگی بچانے کا وعدہ کیا تھا لیکن سانپ کا زہر جسم میں پھیلنے کے نتیجہ میں متاثرہ شخص فوت ہوگیا ۔ اگر اسے ان دھوکہ باز ڈھونگی باباؤں سے رجوع کرنے کے بجائے ہاسپٹل سے رجوع کیا جاتا تو اس کی زندگی بچ جاتی ۔ دہلی میں حال ہی میں ایک ہی خاندان کے 11 افراد نے پھانسی لے کر خود کشی کرلی ۔ وہ بھی توہم پرستی کی ایک بدترین مثال ہے ۔ ہمارے ملک کی بدقسمتی یہ ہے کہ توہم پرستی کو بآسانی فروغ حاصل ہوجاتا ہے ۔ ہندوستانی عوام کو بآسانی بیوقوف بنایا جاسکتا ہے لیکن معقولیت پسندی اور معقولیت پسندوں کی مخالفت کی جاتی ہے ۔ انہیں مذہب دشمن کہا جاتا ہے ۔ انتہائی تعلیم یافتہ طبقہ میں بھی یہ دیکھا جاتا ہے کہ کوئی کام کے لیے نکلتا ہے اس دوران کسی کو چھینک آجائے تب وہ اپنا کام روک دیتا ہے ۔ اسے بدشگونی سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔ حالانکہ چھینک انسان کے لیے راحت کا باعث بنتی ہے ۔ اس کے ذریعہ اربوں جراثیم کا اخراج عمل میں آتا ہے ۔ سیاہ یا سفید کوئی بھی بلی راستہ کاٹ دے یعنی راستے سے گذر جائے تو اسے بھی بدشگونی کی علامت تصور کیا جاتا ہے ۔ توہم پرستی کا شکار لوگ الٹے قدم یا الٹے پاؤں واپس ہوجاتے ہیں اور پھر آگے بڑھتے ہیں حالانکہ جس طرح انسانوں میں گورے کالے ہوتے ہیں اسی طرح بلیوں میں بھی کئی رنگ کی بلیاں ہوتی ہیں اور بلی کو شیر کی خالہ کہا جاتا ہے ۔ بلیوں کی اقسام پر گہری نظر رکھنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ کم از کم بلیوں کی 22 اقسام ایسی ہیں جو سیاہ رنگ کی ہوتی ہیں ۔ ان میں دراصل Melanin زیادہ ہوتا ہے جس کی وجہ سے رنگ سیاہ ہوتا ہے ۔ اکثر سیاہ بلیوں کی آنکھیں سنہری یا زرد اور چمکدار ہوتی ہیں ۔ عوام کے کمزور عقیدہ اور توہم پرستی کا راست فائدہ ڈھونگی باباؤں ، سادھو اور سوامی اٹھاتے ہیں یہ لوگ بڑی چالاکی سے توہم پرستی کو فروغ دے کر بھولے بھالے عوام کو اپنی جال میں پھانس لیتے ہیں اور کچھ پڑھے لکھے بے وقوف بھی ان کی چکر میں آجاتے ہیں ۔۔ ( سلسلہ جاری ہے )