تنہائی ، اکیلا پن اور معنی خیز خاموشی

ڈاکٹر مجید خان
ایک نئی نفسیاتی کیفیت جو دیکھنے میں آرہی ہے اور ماہرین نفسیات ابھی تک اس پر زیادہ توجہ نہیں دے رہے ہیں اُس کا تعلق تنہائی سے ہے۔
کیا قدیم زمانے کی تنہائی اور آج کے حالات میں لوگ جو تنہائی محسوس کرتے ہیں، کوئی فرق ہے۔ اس کا جائزہ لینے سے یہ موضوع سمجھ میں آتا ہے۔ پرانی طرح کی تنہائی اور آج کل کی نئی تنہائی میں زمین اور آسمان کا فرق ہے۔
اس مضمون کے لئے میں تنہائی کا مفہوم اکیلے پن کا لیا ہوں۔ میں سمجھتا ہوں کہ تنہائی اور اکیلے پن میں فرق ہے۔ کیا فرق ہے اُس کی تشریح کرنی ہوگی۔ سب کی صحبت میں ہوتے ہوئے بھی احساس اکیلاپن ہونا اُس تنہائی پر میں تبصرہ کرنا چاہوں گا۔

اکیلا پن محسوس کرنا ایک نفسیاتی کیفیت ہے۔ اس میں جذبات کو کتنا دخل ہے۔ وہ ایک الگ مسئلہ ہے۔ کیا لوگ تنہائی اور اکیلے پن کی شکایت کرتے ہیں۔ اس کا جواب ہے آج کل کے حالات میں ہاں۔ خالی گھونسلے کی جو اصطلاح ہے وہ اسی کیفیت کا اظہار کرتی ہے۔ تنہائی ایک مجبوری ہوتی جارہی ہے کیا یہ ایک نفسیاتی مرض ہے؟ اس کا جواب نفی میں ہے مگر کتنی اور بیماری کی شفاء کے لئے یہ ایک صحتمند کیفیت نہیں ہے۔ عمر رسیدہ صحتمند شخص جب بحالت مجبوری اپنی اولاد سے دور ہونے لگتا ہے تو ظاہر ہے اُس کو اپنی روز مرہ کی زندگی میں اس خلاء کو کس طرح پورا کیا جائے اُس پر غور تو کرنا ہوگا مگر اس کو دور تو نہیں کرسکتا۔ مجھے معلوم ہے کہ ہر شخص تو نہیں غور کرتا ہے۔ اکثر و بیشتر لڑکے و لڑکیوں کی شادیاں ہوجاتی ہیں اور پھر بہت ممکن ہے لڑکا بیرون ملک تلاش معاش میں چلا جاتا ہے اور سب مطمئن رہتے ہیں۔ مگر گھر میں ایک نوجوان فرد کی کمی ہوجاتی ہے۔ آپ کی تنہائی پر اس کا کتنا اثر پڑے گا اُس کا اندازہ تو ہو ہی جائے گا وہ جو گھر کی ضروریات کو خاموشی سے پورا کیا کرتا تھا اُس کی کمی محسوس ہوگی۔ مگر بہت کم لوگ ہیں جو اس کی شکایت کرتے ہیں۔ تنہائی اور اکیلا پن برداشت کرنے کا مادہ ہم میں بہت زیادہ ہے۔
عورتوں کی تنہائی کا مسئلہ الگ ہے۔ باپ اپنے بیٹے کی دوری محسوس کرتا ہے مگر شکایت کسرِ شان سمجھتا ہے۔ ماں بیٹی کی جدائی پر ہمیشہ روتی ہے۔
پرانے زمانے میں مشترکہ خاندان کا رواج تھا۔ محلے والوں سے میل ملاپ اچھا تھا۔ بہرحال ایک صحتمند سماجی زندگی ہوا کرتی تھی۔ مکانات اب فلیٹس میں تبدیل ہوگئے ہیں اور بسنے والوں کے درمیان فاصلہ کم ہوچکا ہے۔ ضروریات زندگی بدل چکی ہیں۔

گھر والوں میں باہمی گفتگو اور گپ شپ جس کو میں خوشگوار تعلقات کا اہم جز سمجھتا ہوں کا سلسلہ کم ہوتا جارہا ہے کیونکہ سب کو اپنی فرصت میں ٹیلی ویژن دیکھنا ضروری ہے یا پھر سیل فونس کی نئی بکواس مصروفیت روز مرہ کی زندگی کی ضرورت بن گئیہے۔ اگر یہ نہ ہو تو اکیلا پن کاٹنے کو آئے گا۔ اس کے علاوہ گھر پر لوگ رہنے کے باوجود آپ سے کوئی بات نہیں کرتا کیونکہ یہ گفتگو خشک ہوتی ہے۔ عمروں کا تقاضہ ایک بڑا عذر بن گیا ہے۔ جیسے جیسے طبعی عمروں میں بے تحاشہ اضافہ ہوتا جارہا ہے لوگ اپنے قریبی حلقوں سے دور ہوتے جارہے ہیں۔ گھر بھر کے لوگ بھی ہوں تو ان کی دلچسپی کی کوئی بات نہیں ہوتی ہے۔ یادداشت درازی عمر کی وجہ سے کمزور ہونے لگتی ہے۔ گھر والوں کی باتیں سمجھ میں نہیں آتیں۔ اہلیہ اگر نسبتاً جوان ہو تو وہ تو اجتماعی خاندانی ہنسی مذاق میں حصہ لے گی اور آپ خاموش رہیں گے۔ اگر مخل ہوکر بار بار اعادہ کی خواہش کریں گے تو لوگ بیزار ہوجائیں گے۔ آپ چاہتے ہیں کہ شامل محفل ہوں مگر اُس کے لئے بہتر سماعت، بہتر بصارت اور کام چلاؤ یادداشت تو ہونی چاہئے۔ ان نعمتوں کی محرومی سے ایک تکلیف دہ اکیلا پن محسوس ہونے لگتا ہے جو لاعلاج ہے۔ بعض لوگ تنہائی پسند ہوتے ہیں اور لوگوں سے میل ملاپ ان کو پسند نہیں ہوتا۔ اگر آپ کو اکیلا پن پسند نہیں ہے تو یہ تنہائی آپ کے لئے تکلیف دہ ہوتی جائے گی۔ ویسے تو عام لوگوں میں مل جل کر رہنا، اطراف کے لوگوں سے ربط ضبط قائم رکھنا، میل ملاپ رکھنا یکساں نہیں ہوتا۔ جو تنہائی پسند ہیں اُن کا کوئی مسئلہ صحتمندی کے دوران نہیں ہوتا۔ اس کے بجز زبردستی میل ملاپ اُن کے لئے تکلیف دہ ہوجاتا ہے مگر ضعیفی میں جب وہ کمزور ہوجاتے ہیں۔ یادداشت متاثر ہوجاتی ہے۔ نقل و حرکت محدود ہوجاتی ہے۔ ان لوگوں کو مشکلات پیدا ہوتی ہیں۔ گھر والوں سے صرف روز مرہ کی ضروریات کے تعلق سے بات ہوتی ہے۔ تکلیف دہ بات تو یہ ہے کہ جو لوگ اکیلاپن محسوس کرتے ہیں وہ چاہتے ہیں کہ گھر والے اُن کے ساتھ کچھ اچھا وقت گذاریں۔ مگر آج کل کی مصروف زندگی میں یہ ممکن نہیں ہے۔ بعض لوگ دن میں کام کرتے ہیں تو بعض رات میں۔ گھر میں غیر ضروری تناؤ ہو اور کسی کو غیرمعمولی غصہ ہو تو اکیلا ضعیف سہما ہوا رہتا ہے۔ یہ سب نئے نفسیاتی مسائل پیدا ہورہے ہیں جن کے تعلق سے واقفیت ہی ایک قسم کا حل ہے۔
یہ لوگ ہر طرح سے معذور ہیں۔ گھر کے لوگ اُن کی دیکھ بھال کرتے ہیں اس کا شکر ادا کرنا چاہئے۔ جتنی بھی توجہ مل رہی ہے اُس پر قناعت کرنا چاہئے۔ یہ اُن کی سوچ ہوتی ہے۔

اب ان ضعیف مریضوں کی بیماریوں کے علاج کے مسائل پر غور کیجئے۔ کئی بیماریوں کے علاج کے لئے بے حساب دوائیں لکھ دی جاتی ہیں۔ چند غذا سے پہلے تو چند غذا کے بعد۔ اُن کی سختی سے پابندی کرنی ہو تو پھر صبح میں ایک نرس اور شام میں ایک نرس کی ضرورت پڑتی ہے۔ مریض کے ذہن میں ڈاکٹر دوائیوں کی اہمیت کا خوف بٹھا دیتے ہیں کہ اگر آپ ایک وقت کی دوا چھوڑیں گے تو فالج ہوسکتا ہے یا پھر دورہ آسکتا۔ مریض دیکھتا ہے کہ اُس کی دوائیوں کا اسٹاک ختم ہورہا ہے۔ مصروف بہو یا لڑکے کو ہلکے انداز میں یاد دلاتا ہے مگر وہ لوگ اپنی مصروفیت میں بھول جاتے ہیں۔ ڈر رہتا ہے کہ بار بار یاد دلانے سے خفگی کا اظہار نہ ہو یا پھر مریض کی دوائیوں کے معاملے میں میاں بیوی میں بحث و تکرار نہ ہو۔ یہ بڑے حساس اور اہم گھریلو مسائل ہیں جو نئی ضعیفی میں دیکھے جارہے ہیں۔ اگر فلیٹ میں نہ ہوں تو کسی باہر کے آدمی کی مدد لی جاسکتی ہے۔ مگر فلیٹ کی مجبوریاں قید کی مجبوریوں کی طرح ہیں۔ تنہائی میں اکیلاپن ایک اندرونی ذہنی کیفیت ہے۔ ممکن ہے خاندانی ماحول اچھا ہے اور ضعیف بزرگ کو کسی قسم کی تکلیف نہ ہو۔ تیمارداری خاطر خواہ ہو۔ بہرحال پُرسکون زندگی جتنی بھی پہنچائی جاسکتی ہے وہ پیار و محبت سے پہنچائی جارہی ہے۔
مگر مریض کو ایک ایسی قسم کی کیفیت محسوس ہوتی ہے جس کا کھلا اظہار وہ بار بار کر نہیں کرسکتا۔ عمر رسیدہ ہے۔ مرض کی تشخیص ہوچکی ہے۔ علاج پر تکلف کیا جارہا ہے مگر مریض جانتا ہے کہ کچھ دنوں کا وہ مہمان ہے۔ اس موضوع پر وہ بات کرنا بھی چاہتا ہے تو اُس کو منع کردیا جاتا ہے۔ یہاں پر اُداسیوں کے سمندر میں وہ اکیلے غوطے لگانے لگتا ہے۔ یہ تو اکیلا ہے نہ تنہا مگر اندرونی طور پر ایک تنہائی محسوس کرتا ہے جو تکلیف دہ ہوجاتی ہے اس کیفیت میں اگر بے خوابی شروع ہوجائے تو ان کے اندھیرے میں جو خوف و ہراس کی کیفیت ہوتی ہے وہ اس کا ازالہ چاہتا ہے۔ اس کے لئے وہ خواب آور دوائیں چاہتا ہے۔ دن کے وقت کو گھر کی گہما گہمی میں اور اپنی مصروفیت میں وقت نکل جاتا ہے مگر ان کی تنہائی سے ہیبت ہونے لگتی ہے۔ دن بھر یہ ڈر لگا رہتا ہے کہ رات میں نیند آئے گی یا نہیں۔ اُس کو صرف ایک ہی دن کی فکر لاحق ہوا کرتی ہے۔ اُس کی سوچ میں مستقبل نہیں ہوا کرتا ہے۔ ان مریضوں میں ہلکی سی خواب آور دوا ناگزیر ہوجاتی ہے۔ ضعیفی میں اگر کچھ باتیں ناگوار گذریں تو چڑ چڑا پن شروع ہوسکتا ہے۔ جس کو برداشت کرنا رشتے دار تیمار داروں کے لئے مشکل ہے۔ رشتہ دار کم از کم راتوں میں آرام کی نیند سونا چاہتے ہیں مگر غصہ سے بھرے ہوئے ضعیف لوگ رات بھر کسی کو سونے نہیں دیتے ہیں۔ کوئی کہتا تو نہیں مگر ظاہر ہے تیمارداری سے تھک جاتے ہیں اور مریض کیلئے سکون پیدا کرنے والی دواؤں کا مطالبہ کرتے ہیں۔ مریض سے زیادہ وہ اپنا سکون چاہتے ہیں اس لئے بسا اوقات اپنی طرف سے دوا کو دوگنی یا اُس سے بڑھ کر بھی کردیتے ہیں اور اس دوران کھانے کھاتے وقت اگر ٹھسکہ لگے تو یہ آناً فاناً میں روح پرواز ہوسکی ہے۔ اکثر ہم سنتے ہیں کہ اچھے خاصے تھے ایک ٹھسکہ لگا اور ختم ہوگئے۔

نہ تو اس کو لاپروائی کہا جاسکتا ہے نہ کسی کی غلطی قرار دی جاسکتی ہے۔ بہترین دواخانوں میں بھی ایمرجنسی میں مصروف نرس کے آنے میں موت واقع ہوسکتی ہے۔
بہرحال تیمارداروں کو نئے معلومات سے واقف ہونا چاہئے۔ مغربی ممالک میں ان لوگوں کی دیکھ بھال بیت المعمرین میں ہوتی ہے مگر یہ سمجھنا کہ وہاں پر بہتر تیماری داری ہوا کرتی ہے ایک واہمہ ہے۔ حیدرآباد میں بھی اب اچھے معیار کے بیت المعمرین کی سخت ضرورت محسوس ہورہی ہے۔