تنقید کو غداری کے طور پر نہیں دیکھا جاسکتا ۔ لاء پینل کاردعمل

مذکورہ کمیشن نے اس بات پر بھی غور کیا کہ ائی پی سی کے سیکشن 124اے میں ترمیم کے متعلق مطالعہ کے احکامات جو ملک سے غداری پر مشتمل ہے‘ یوکے پر غور کیاجاسکتا ہے جس کو ائی پی سی کے اس سیکشن میں متعارف کروایاگیاتھا‘دس سال قبل سیڈیشن قانون ختم کردیاگیا۔

نئی دہلی۔ لاء کمیشن نے کنسلٹیشن پیپر میںآج جائزہ لینے کے دوران کہاکہ ملک پر تنقید کرنا یا ایک خاص مقصد کو ترجیح دینا کے واقعات کو بطور’’ سیڈیشن‘‘ نہیں دیکھا جاسکتا اور اس طرح کا دفعات ان واقعات میں ہی لگائے جاسکتے ہیں جس کا مقصد حکومت کوتشدد اور غیر قانونی مطلب کے ذریعہ گرانا کی کوشش کے تحت انجام دئے گئے ہوں۔

مذکورہ کمیشن نے اس بات پر بھی غور کیا کہ ائی پی سی کے سیکشن 124اے میں ترمیم کے متعلق مطالعہ کے احکامات جو ملک سے غداری پر مشتمل ہے‘ یوکے پر غور کیاجاسکتا ہے جس کو ائی پی سی کے اس سیکشن میں متعارف کروایاگیاتھا‘دس سال قبل سیڈیشن قانون ختم کردیاگیا۔

اس میں مانا گیا ہے اس دشمن قانون کے استعمال کے لئے برطانیہ کو مثال نہیں بنایاجانا چاہئے۔ کنسلٹیشن پیپر دنیاکی عظیم جمہوریت ہندوستان میں سیڈیشن جیسے قانون کی وضاحت کے ائیڈیا بھی شامل تھا‘ اظہار خیال کی آزادی جمہوریت کا اہم پہلو ہے جو دستور ہند کے تحت دئے گئے بنیادی حقوق کو یقین دہانی کراتے ہیں۔کنسلٹیشن پیپر کا کہنا ہے کہ’’ مخصوص پہلو کے ساتھ یاپھر ملک پر برہمی یا تنقید پر سیڈیشن کا استعمال نہیں کیاجاسکتا ہے۔

اگر ملک میں کھلے عام تنقید کا موقع نہیں رہے گاتو آزاد سے قبل اور مابعد کے دور میں کوئی فرق باقی نہیں رہ جائے گا‘‘۔پیپر میں جواہر لال نہر و یونیورسٹی اسٹوڈنٹ لیڈر کنہیا کمار پر کی مثال بھی پیش کی جس پر کیمپس میں مخالف ملک نعرے لگانے کے الزام کے تحت سیڈیشن چارجس عائد کئے گئے تھے۔

اس میں مزیدکہاگیاکہ اگر چہ یہ قومی سالمیت کی حفاظت کے لئے ضروری تھا‘ اس کو اظہار خیال کی آزادی کو ختم کرنے کے ہتھیار کے طور پر استعمال نہیں کیاجانا چاہئے۔

کمیشن نے اس امیدکا بھی اظہار کیاہے کہ ملک میں قانونی اداروں‘ قانون سازی کرنے والوں ‘ حکومت او رغیر سرکاری اداروں‘ تعلیمی اداروں ‘ طلبہ اور عام لوگوں کے درمیان میں عوام دوست ترمیم کو روبعمل لانے کے عنوان پر صحت مند بحث ملک میں کرائی جائے گی