تلگو دیشم کو راستے سے ہٹانے کی کوشش

تلنگانہ / اے پی ڈائری خیر اللہ بیگ
چیف منسٹر آندھرا پردیش چندرا بابو نائیڈو کو وزیراعظم نریندر مودی اور چیف منسٹر تلنگانہ کے چندر شیکھر راؤ سے یہ شکایت ہے کہ یہ دونوں مل کر ان کی حکومت گرانے کی سازش کررہے ہیں ۔ ریاست آندھرا پردیش میں ان کی حریف وائی ایس آر کانگریس کے صدر جگن موہن ریڈی کے ساتھ ساز باز کرتے ہوئے 1000 کروڑ روپئے خرچ کر کے تلگو دیشم کا صفایا کرنا چاہتے ہیں ۔ ان کا یہ الزام بھی ناقابل فہم ہے کہ تلنگانہ راشٹرا سمیتی نے آنے والے انتخابات کے لیے وائی ایس آر کانگریس کو ’’نوٹوں سے بھرے ‘‘ بیاگس حوالے کئے ہیں ۔ سوال یہ ہے کہ آیا وائی ایس آر کانگریس اتنی کمزور کب سے ہوگئی کہ اسے تلنگانہ کے چیف منسٹر کی دی ہوئی رقم سے تلگودیشم کے خلاف کام کرے گی اور ٹی آر ایس کے پاس اتنی دولت کہاں سے آئے گی کہ وہ آندھرا پردیش میں ایک ایسی پارٹی کے خلاف پیسہ خرچ کرے جس کے ساتھ ٹی آر ایس کا کوئی خاص مقابلہ نہیں ہے ۔ لگتا ہے چیف منسٹر آندھرا پردیش اپنی سیاسی مخالفت میں سیاسی سوجھ بوجھ کھوتے جارہے ہیں ۔ وزیراعظم مودی کے دورہ آندھرا پردیش کو ایک معمول کا دورہ کہا جاسکتا ہے ۔ کسی ریاست کے چیف منسٹر کو کسی دوسری ریاست کی حکومت کی اندھی مخالفت یا اندھی حمایت دونوں میں غلط نتائج برآمد کرسکتی ہے ۔ کوئی بھی حکومت نہ تو مکمل طور پر بری ہوتی ہے اور نہ ہی مکمل طور پر اچھی ہوتی ہے اس لیے چندرا بابو نائیڈو کو اپنی ریاست میں تلگو دیشم کو کمزور ہونے سے بچانے کی فکر کرنے کی ضرورت ہے ۔ دوسری پارٹیوں کے بغلیں جھانکنے سے اپنی کمزوریوں کا پتہ نہیں چلتا ۔ اس لیے آنے والے انتخابات میں آندھرا پردیش اور تلنگانہ دونوں جگہ تلگودیشم کو اپنے امیدواروں کے انتخاب اور ان کی کامیابی کو یقینی بنانے کی کوشش کرنی چاہئے ۔ کے سی آر کو پہلے ہی سے انہوں نے فکر میں مبتلا کردیا ہے ۔

کانگریس کے ساتھ چندرا بابو نائیڈو کی دوستی اور ملک گیر سطح پر اپوزیشن اتحاد کے روح رواں بن کر نائیڈو نے کے سی آر کے دہلی تک چھلانگ لگانے کے ہدف میں رکاوٹ ڈال دی ہے تو لوک سبھا انتخابات میں کے سی آر کو 17 لوک سبھا حلقوں کے منجملہ 16 پر کامیابی کے لیے بہت محنت کرنی پڑے گی ۔ دونوں تلگو ریاستوں کی حکمراں پارٹیوں کے لیے اصل مسئلہ داخلی حکمرانی کا ہے اور اگر دونوں پارٹیوں کے سربراہوں کو اپنی پارٹی اور پارٹی کیڈرس پر گرفت مضبوط ہے تو کوئی بھی ایک دوسرے کو کمزور کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکتا ۔ اس لیے عام انتخابات سے قبل اپنی اپنی ترجیحات طئے کرتے ہوئے عوام سے ووٹ لینے کی کوشش کریں ۔ مرکز کی نریندر مودی حکومت اور تلنگانہ کی کے سی آر حکومت نے اپنی پانچ سالہ حکمرانی کے دوران جتنے بھی جھوٹ بولے ہیں ان کا حساب ہوگا ۔ مودی اور کے سی آر نے شروع شروع میں عوام سے واہ واہ لینے کے لیے بڑے بڑے منصوبے شروع کیے تھے لیکن دھیرے دھیرے یہ سب واہ واہ ’’ آہ ‘‘ میں تبدیل ہوگئی ۔ آج ہر شہری دونوں حکومتوں کی شکایت کررہا ہے اور ’’ آہ ‘‘ بھر رہا ہے غرضیکہ عوام کی آہیں ابھی سنائی نہیں دے رہی ہیں ۔ اپوزیشن کا کلیجہ ٹھنڈا ہورہا ہے کیوں کہ اس نے اپوزیشن کے طور پر حکومتوں کے خلاف مضبوط رول ادا تو نہیں کیا لیکن اس نے اپنے کلیجہ کو ٹھنڈا کرنے کے لیے اتحاد کی دوڑ شروع کی ہے ۔ وزیراعظم مودی کی طرح چیف منسٹر تلنگانہ کے سی آر نے بھی یہ بانگ دہل اپنے وعدوں سے انحراف کرتے ہوئے خود کی ہر بات کو ہی اول قرار دے رہے ہیں ۔ اس لیے عین لوک سبھا انتخابات کے موقع پر ان دونوں حکومتوں سے ضرب کھانے والے رائے دہندوں نے دونوں میں سے ایک کو عقاب اور دوسرے کو شکرا سمجھا ہے ۔ یہ جوڑی ٹھیک نہیں رہتی پھر بھی اندر ہی اندر جوڑی جم رہی ہے ۔ کے سی آر کی پارٹی پر نظر دوڑائی جائے تو اس کو مرکز میں خواب سجانے کا موقع نہیں ملے گا ۔ مرکز کا ہی نہیں بلکہ انہوں نے اپنی ریاست تلنگانہ کے عوام کو جو خواب دکھائے وہ بھی پورے نہیں ہوئے ۔ اس لیے عوام نے ان کے خلاف آواز اٹھانا شروع کیا ہے ۔ عوام کی ناراضگی اور آواز میں اثر ہوتا ہے ۔ اس لیے کے سی آر کا یہ منصوبہ کہ بیسن پولو گراونڈ سکندرآباد پر نیا سکریٹریٹ بنائیں گے ۔ پورا نہیں ہوتا دکھائی دے رہا ہے کیوں کہ حیدرآباد و سکندرآباد سے تعلق رکھنے والے شہریوں نے جمخانہ گراونڈ میں جمع ہو کر یہاں سکریٹریٹ تعمیر کرنے کے سی آر حکومت کے منصوبوں کی مخالفت کی اور احتجاج کیا ۔ ہاتھوں میں احتجاجی بیانرس تھامے شہریوں سے چیف منسٹر کے سی آر پر اپنے غم و غصہ کا اظہار کیا ۔ شہر میں میدان کی کمی ہے ۔ یہاں عمارتوں کی تعمیر سے میدانوں کا صفایا ہوجائے گا ۔ موجودہ سکریٹریٹ کی عمارت کو ہی بہتر بناتے ہوئے تزئن نو کی جاسکتی ہے ۔ احتجاجی عوام نے مرکز پر بھی زور دیا کہ وہ یہ زمین کے سی آر حکومت کے حوالے کرنے کے فیصلہ کو واپس لے ۔ اس کے علاوہ بیسن پولو اور جمخانہ تحفظ فورم نے نیا سکریٹریٹ بنانے کے سی آر حکومت کے منصوبوں کو فوری واپس لینے کے لیے زور دیا ہے ۔ تلنگانہ ہائی کورٹ میں بھی دو مفاد عامہ کی درخواستیں زیر سماعت ہیں ۔ اسی طرح ہر مسئلہ کے بعد دوسرے مسئلہ پر عوام سڑکوں پر نکل آنے لگیں تو کے سی آر کی حکومت کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا ۔ لوک سبھا انتخابات میں یہ اقتدار پرست اپنی ضد میں قائم رہ کر ووٹ لینے میں کامیاب ہوں گے تو عوام کے احتجاج کو وہ ہرگز خاطر میں نہیں لائیں گے ۔ یہ اقتدار پرست صرف اور صرف اپنی ضد کو مانتے ہیں عوام کے احتجاج کو نہیں ۔ انہیں عوام کی نیک نیت سے نہیں بلکہ اپنی بدنیتی سے غرض ہوتی ہے ۔ اس حکومت نے شہر میں فلک شگاف عمارتیں بنانے کا پانچ سال قبل اعلان کیا تھا ابھی تک شہر میں ایسی کوئی عمارت دکھائی نہیں دی ۔ لیکن کے سی آر کی اصل پہچان ہی ان کی وعدہ خلافیاں ہیں ۔ ان کی ووٹ لینے کی حکمت ہی کامیابی کی دلیل ہے ۔ ان کے سیاسی نسخوں کے آگے اپوزیشن کمزور پڑنے سے وہ بے لگام ہوگئے ہیں ۔ کانگریس کو اپنے سیاسی کبڑے پن کو دور کرنے اور کمر سیدھی کرنے کے لیے منظم طریقہ سے کام کرنے کی ضرورت ہے ۔ مگر وہ ایسا کرنے سے قاصر ہے ۔ صرف ہائی کمان پر آس اور اب پرینکا گاندھی سے امید باندھنے والی تلنگانہ پردیش کانگریس کو سیاسی قبض سے چھٹکارا پانے کے لیے ہائی کمان کے چورن کی ضرورت ہے ۔