تلگودیشم اور ٹی آر ایس ارکان میں لفظی جھڑپ، اسمبلی اجلاس تین مرتبہ ملتوی

حیدرآباد۔/12نومبر، ( پی ٹی آئی) تلنگانہ قانون ساز اسمبلی میں بجٹ پر عام بحث آج بھی غیر مختتم رہی کیونکہ حکمراں ٹی آر ایس اور اپوزیشن تلگودیشم پارٹی کے ارکان کے مابین لفظی جھڑپ اور تلخ ریمارک کے تبادلوں کے سبب دن بھر کی کارروائی متاثر رہی۔ ایوان میں مسلسل شوروغل اور ہنگامہ آرائی کے نتیجہ میں کارروائی کو تین مرتبہ دس منٹ کیلئے ملتوی کیا گیا جس کے بعد بھی صورتحال قابو میں نہ آنے پر اسپیکر نے دن بھر کیلئے اجلاس ملتوی کردیا۔ تلگودیشم پارٹی کے سینئر رکن اسمبلی اے ریونت ریڈی نے وزیر انفارمیشن ٹکنالوجی کے ٹی راما راؤ کے خلاف تحریک مراعات پیش کرنے کا مطالبہ کیا اور الزام عائد کیا کہ انہوں نے تلگودیشم ارکان اسمبلی کو آندھرا پردیش کے چیف منسٹر این چندرا بابو نائیڈو کے پیروکار قرار دیتے ہوئے ان کی توہین کی ہے۔ جس کے جواب میں ٹی آر ایس کے ارکان نے بھی تلگودیشم ارکان سے معذرت خواہی کا مطالبہ کیا اور الزام عائد کیا کہ گزشتہ روز انہوں نے ایوان میں کہا تھا کہ ٹی آر ایس کی رکن پارلیمنٹ کے کویتا نے جامع گھریلو سروے کے دوران دو مقامات پر اپنی تفصیلات درج کروائی ہیں۔ کانگریس کے سینئر رکن اسمبلی ملو بھٹی وکرامارکا نے پوائنٹ آف آرڈر اٹھایا اور بجٹ پر بحث کے دوران شخصی حملوں اور الزامات کے تبادلوں پر ناخوشی کا اظہار کیا۔ وزیر فینانس ایٹالہ راجندر اور وزیر آبپاشی ٹی ہریش راؤ بھی اس مسئلہ پر تلگودیشم ارکان اسمبلی کے ساتھ بحث میں شامل ہوگئے جس کے نتیجہ میں ایوان میں زبردست ہنگامہ آرائی ہوگئی اور شوروغل کے دوران ایوان کو ملتوی کردیا گیا۔ وقفہ سوالات کے کا سارا وقت دودھ میں ملاوٹ سے متعلق سوال پر گذر گیا۔ اس مسئلہ پر ٹی آر ایس اور ٹی ڈی پی ارکان کے مابین تلخ مباحث کے نتیجہ میں ایوان کو دو مرتبہ ملتوی کرنا پڑا۔ چندرا بابو نائیڈو کے ارکان خاندان کی مملوکہ کمپنی ہیرٹیج ملک کی طرف سے سربراہ کئے جانے والے دودھ کے معیار پر سخت الفاظ کا تبادلہ کیا گیا۔ٹی آر ایس ارکان نے الزام عائد کیا کہ ہیرٹیج کمپنی ملاوٹ شدہ دودھ سربراہ کررہی ہے اور حکومت کیرالا کی جانب سے اس پر پابندی عائد کی گئی ہے۔

ان الزامات کی تائید کرتے ہوئے کے ٹی راما راؤ نے اس کمپنی کی طرف سے سربراہ کئے جانے والے دودھ پر امتناع سے متعلق حکومت کیرالا کے حکمنامہ کی نقل ایوان میں پیش کی۔ ڈپٹی چیف منسٹر ٹی راجیا جو وزیر صحت بھی ہیں کہا کہ ہیرٹیج کمپنی کے خلاف پنجہ گٹہ حیدرآباد میں ایک کیس بھی درج کیا گیا ہے کیونکہ اس کمپنی کے دودھ کے نمونہ کا معائنہ کیا گیا تھا جس میں کیمیائی مادہ ڈٹرجنٹ پایا گیا تھا اور 2006ء کے قانون برائے غذائی حفاظت کے تحت کارروائی کی گئی۔ ان کے بیان پر سخت اعتراض کرتے ہوئے تلگودیشم کے رکن اے ریونت ریڈی اور دوسروں نے احتجاج کیا اور ایوان کے وسط میں پہنچ گئے۔ ریونت ریڈی نے کہا کہ حکومت کیرالا نے اس کمپنی کے دودھ کو فروخت کرنے کی اجازت دی ہے جس میں کسی قسم کی کوئی ملاوٹ نہیں پائی گئی۔ اس مسئلہ پر حکمراں اور اپوزیشن پارٹیوں کے بحث مباحث کے دوران اسپیکر مدھوسدن چاری نے دس منٹ کیلئے ایوان کی کارروائی کو ملتوی کردیا۔ اس کے باوجود ایوان میں ڈسپلن بحال نہیں ہوسکا

کیونکہ وزیر انفارمیشن ٹکنالوجی کے ٹی راما راؤ نے الزام عائد کیا کہ تلگودیشم کے ارکان نائیڈو کے ایجنٹ اور پیروکاروں کی طرح کام کررہے ہیں۔ راما راؤ نے تلگودیشم ارکان اسمبلی سے سوال کیا کہ ’’ آپ اس کمپنی کے ڈائرکٹرس یا حصہ دار نہیں ہیں پھر آخر کیا وجہ ہے کہ آپ لوگ اس بارے میں ضرورت سے زیادہ فکر مند ہیں؟ ۔‘‘ اپوزیشن ارکان اپنا احتجاج جاری ہی رکھے ہوئے تھے کہ اسپیکر نے دوسری مرتبہ دس منٹ کیلئے ایوان کی کارروائی کو ملتوی کردیا۔ ایوان میں تمام ارکان نے جماعتی وابستگیوں سے بالاتر ہوکر بالخصوص شہر حیدرآباد میں ملاوٹ شدہ دودھ کی سربراہی پر گہری تشویش کا اظہار کیا اور کہا کہ شہر میں دودھ کی سربراہی سے کہیں زیادہ مانگ ہے۔ کانگریس کی سینئر رکن جے گیتا ریڈی نے کہا کہ ’’ یہ ایک سماجی لعنت ہے اور حکومت کو چاہیئے کہ وہ ملاوٹ شدہ دودھ کی سربراہی میں ملوث افراد کے خلاف سخت ترین کارروائی کرے کیونکہ ایسے دودھ کی سربراہی سے صحت عامہ کو سنگین خطرہ لاحق رہتا ہے۔‘‘ ڈاکٹر راجیا نے ایوان کو یقین دلایا کہ ملاوٹ شدہ دودھ تیار اور سربراہ کرنے والوں کے خلاف حکومت سخت ترین کارروائی کرے گی۔