تلنگانہ کا ’ برین ‘ وزارت سے محروم

تلنگانہ / اے پی ڈائری خیر اللہ بیگ
کے ٹی راما راؤ کو تلنگانہ کا ’ برین ‘ کہا جاتا ہے اور وہ اپنی پرانی حکومت کی وزارت میں ’ برین ‘ کا استعمال کرتے ہوئے کامیابی کی منزلیں طئے کرچکے ہیں ۔ مگر نئی حکومت میں انہیں اپنا ’ برین ‘ استعمال کرنے کا موقع نہیں دیا گیا ۔ کے چندر شیکھر راؤ کابینہ میں توسیع کی گئی تو صرف 4 پرانے ارکان اسمبلی کو حلف دلایا گیا اور 6 نئے ارکان اسمبلی کو کابینی ذمہ داری حوالے کی گئی ۔ چیف منسٹر کے سی آر نے خود کئی اہم قلمدان رکھ لیے ہیں ۔ کے ٹی راما راؤ کے ’ برین ‘ کو آنے والے لوک سبھا انتخابات کے لیے استعمال کیا جائے گا تو اس ’ برین ‘ کو تربیت دینے والا ایک اور ’ برین ‘ ہریش راؤ کو بھی کابینہ سے دور رکھا گیا ۔ یہ واقعہ ان لوگوں کے لیے حیرت کا باعث ہے جو کے ٹی راما راؤ اور ہریش راؤ کو تلنگانہ کے دو قابل سیاستداں سمجھتے ہیں لیکن کے سی آر کی سوچ اور منصوبہ کے آگے کسی کی نہیں چل سکے گی ۔ باپ نے بیٹے کے لیے اپنی کابینہ میں جگہ نہیں چھوڑی ورنہ کے ٹی آر یہ کہتے کہ یہ میرے باپ کی عطا ہے ۔ آخر اس مرتبہ باپ ، بیٹے میں عطائے وزارت کا مسئلہ کیوں درپیش آیا ۔ آپ لوگوں نے اکثر دیکھا ہوگا کہ ٹرک یا لاری کے پیچھے ایک جملہ لکھا ہوتا ہے کہ ’ یہ میرے باپ کی عطا ہے ‘ یا آٹو پر لکھا ہوتا ہے کہ ’ یہ میری ماں کی دعا ہے ‘ آخر ایسی کون ماں ہوگی یا کون باپ ہوگا کہ اپنے بیٹے کو آٹو رکشا چلانے یا ٹرک ڈرائیور بننے کی دعا کرے گا ۔ پھر بھی ٹرک اور آٹو پر یہ دعا لکھنے والے کو اپنے ماں باپ پر فخر ہوتا ہے جس کا وہ تحریری طور پر اظہار کرتا ہے ۔ لیکن کے ٹی راما راؤ کو ایسی تحریر لکھنے کا موقع ہی نہیں ملا ۔ ورنہ وہ بھی اپنے چیمبر کے دروازے پر تختی لگا لیتے کہ یہ ’میرے باپ کی عطا ہے‘ ۔ باپ کے سی آر نے بیٹے کے لیے شاہد کوئی اور اہم چیز عطا کرنے کا ارادہ کرلیا ہے ۔ اس اہم ذمہ داری کا انتظار رہے گا ۔ حقیقت تو یہ ہے کہ نئی کابینہ میں ہریش راؤ اور کے ٹی آر کی عدم شمولیت سے یہ کابینہ بے وزن لگنے لگی ہے ۔

ہمارے چیف منسٹر کے سی آر نے اپنے کندھوں پر کئی اہم قلمدان اٹھائے خاص کر وزارت فینانس کا قلمدان لے کر اسمبلی میں بجٹ پیش کیا تو اندازہ ہوگیا کہ واقعی ان کندھوں میں جان ہے اس لیے اتنے اہم قلمدان لے کر بھی وہ ایوان کے اندر جھکے ہوئے نظر نہیں آئے ۔ ان کی جانب سے پیش کردہ علی الحساب بجٹ فی الحال لوک سبھا انتخابات تک کوئی رنگ نہیں لائے گا کیوں کہ انہوں نے مرکزی فینانس کمیشن کے پیانل کے حالیہ دورہ تلنگانہ سے ناخوشی کا اظہار کیا ہے ۔ چیف منسٹر کو شکایت ہے کہ مرکز نے تلنگانہ کو اس کے حصہ کا فنڈس مناسب طریقہ سے جاری نہیں کئے ہیں ۔ ریاستوں کے حقوق کو سلب کرلیا گیا ہے ۔ وزیر فینانس کی حیثیت سے کے سی آر نے ریاست تلنگانہ کی مالیاتی صورتحال کو اپنی ترکیبی صلاحیتوں سے واضح کیا ہے تاکہ لوک سبھا انتخابات کے موقع پر عوام تک کوئی غلط اشارہ نہ جائے کیوں کہ ایک متمول ریاست کا درجہ حاصل کرنے والی تلنگانہ ریاست کو کنگال بتانا ایک بڑی توہین ہوتی ۔ اس لیے لاکھ مالیاتی خرابیوں کے باوجود کے سی آر نے اپنی حکومت کی کارکردگی کو وزیر فینانس کی حیثیت سے بہتر انداز میں بتانے کی کوشش کی ۔ 15 ویں فینانس کمیشن نے بھی اپنے حالیہ دورہ تلنگانہ کے موقع پر ریاست کی ترقی کی زبردست ستائش کی ہے اور حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ وسط مدتی خسارہ مالیہ اور قرض مینجمنٹ پلان تیار کرے ۔ 15 ویں فینانس کمیشن نے تلنگانہ کو ایک خوشحال ریاست قرار دے کر مرکز سے ریاست کو فراہم کی جانے والی امداد کو غیر یقینی بنادیا ہے ادھر کے سی آر چاہتے ہیں کہ مرکز کی جانب سے ریاستوں کو مالیاتی اعتبار سے خود مختار بنایا جائے ۔ اُدھر فینانس کمیشن نے کے سی آر کے اس مطالبہ کی دم پر ہی اپنا پاؤں رکھ کر یہ واضح کہا کہ تلنگانہ کی پیداوار اور ترقی کی شرح قابل ستائش ہے اور حکومت کی بہبودی اسکیمات بھی شاندار ہیں ۔ ٹی آر ایس حکومت نے ریاست میں آبپاشی شعبہ پر خاص توجہ دے کر اسے ترقی دی ہے ۔ جب مرکز کے مالیاتی ادارے کے سربراہ سے ہی تلنگانہ ریاست کی ترقی و خوشحالی سے متعلق ستائش حاصل ہوجائے تو پھر تلنگانہ کو مالیاتی طور پر پریشان حال بتانے کی کون ہمت کرے گا ۔ اس ریاست کی ترقی کی شرح گذشتہ سال ہی قومی تناسب سے بلند ہوئی ہے اور ریاست میں جی ایس ٹی کی وصولی بھی شاندار بتائی گئی ہے ۔ اس سے مجموعی طور پر اندازہ ہوتا ہے کہ ریاست تلنگانہ مضبوطی کے ساتھ ترقی کی منزلیں طئے کررہی ہے ۔ فینانس کمیشن کی ٹیم نے ریاست تلنگانہ کا 3 روزہ دورہ کیا ۔ یہ 19 ویں ریاست تھی جہاں کمیشن نے اب تک دورے کئے ہیں ۔ یہ فینانس کمیشن کے سربراہ کی جانب سے تعریف اور ستائش سننے کے بعد بھی چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ نے کمیشن کے سامنے التجا کی کہ اربن لوکل باڈیز میں پراجکٹس کی تکمیل کے لیے فنڈس درکار ہے ۔ حکومت کو شہر حیدرآباد میں انفراسٹرکچر کی ترقی کو یقینی بنانا ہے ۔ جی ایچ ایم سی کے لیے فنڈس کا ہونا لازمی ہے ۔ مالیاتی کمی کی وجہ سے بلدیہ اور پنچایتوں میں کام کاج ٹھپ ہے ۔ کمیشن نے کے سی آر کی اس التجا پر دھیان دینے کے بجائے ریاست کی خوشحالی کا ہی ذکر کیا اور مودی حکومت پر مزید مالیاتی بوجھ ڈالنے سے گریز کیا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کمیشن کا یہ دورہ صرف چیف منسٹر کے سی آر اور ان کی کارکردگی کی ستائش کرنا اور تاریخی چارمینار کی سیر کرتے ہوئے ایرانی چائے نوش کرنے تک ہی محدود تھا ۔ کمیشن کی دہلی واپسی کے بعد یہ توقع نہیں کی جاسکتی کہ مرکز اب کے سی آر کو ریاست تلنگانہ کے لیے مالیاتی خود مختاری دینے پر غور کرے گا ۔ مرکز کو تلنگانہ کی آمدنی کا حصہ لینے کی فکر دکھائی دیتی ہے ۔ اس لیے مرکز کی جانب سے تلنگانہ حکومت کو کچھ حاصل ہونے والا نہیں ہے ۔

ریاستوں کی ترقی کی ذمہ داری ریاستی حکومت کی ہے تو مرکزی حکومت کو چاہئے کہ وہ ریاستوں کی دیکھ بھال کے لیے اس کو ترجیحی مسائل سے از خود نمٹنے کی اجازت دے لیکن مرکز نے کے سی آر کے اس مطالبہ پر دھیان ہی نہیں دیا ہے ۔ چیف منسٹر کے ساتھ فینانس کمیشن کی ٹیم کی بات چیت میں مرکز کے اجارہ دارانہ رویہ کی بھی شکایت کی گئی لیکن کمیشن نے اس شکایت پر توجہ نہیں دی ۔ بہر حال چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ کو مرکز سے کچھ حاصل کرنے کے لیے اپنا قومی وزن مزید بڑھانا ہوگا ۔ لوک سبھا انتخابات میں اگر ٹی آر ایس کو 17 لوک سبھا حلقوں کے منجملہ 16 پر کامیابی ملتی ہے تو ٹی آر ایس کے لیے یہ کامیابی قومی عزائم کو بروے کار لانے میں مددگار ثابت ہوگی ۔ چیف منسٹر کے سی آر اسمبلی میں بجٹ پیش کرنے والے دوسرے چیف منسٹر ہیں جو وزارت فینانس کا بھی قلمدان رکھتے ہیں ۔ اس سے قبل چیف منسٹر کے روشیا نے بجٹ پیش کیا تھا ۔ مارچ 2010 میں مشترکہ ریاست آندھرا پردیش کے چیف منسٹر کی حیثیت سے کے روشیا نے ریاستی سالانہ بجٹ پیش کیا تھا کیوں کہ چیف منسٹر راج شیکھر ریڈی کی فضائی حادثہ میں ہلاکت کے سانحہ کے بعد وہ چیف منسٹر بنے تھے اب تقریبا 9 سال بعد تلنگانہ چیف منسٹر کے سی آر نے وزیر فینانس کا قلمدان رکھتے ہوئے بجٹ پیش کیا ہے ۔ حالیہ کابینی توسیع میں کے سی آر نے وزارت فینانس اور ریونیو کا قلمدان کسی بھی وزیر کے تفویض نہیں کیا ۔ اس کے علاوہ انہوں نے آبپاشی ، صنعتوں ، انفارمیشن ٹکنالوجی اور اربن ڈیولپمنٹ کی وزارت اپنے پاس ہی رکھی ہے ۔ اسی طرح وہ آل ان ون چیف منسٹر بن گئے ہیں ۔ بلا شبہ 13 دسمبر کو دوسری میعاد کے لیے چیف منسٹر کا حلف لینے کے بعد سے وہ آل راونڈ کام کررہے ہیں ۔ تمام سرکاری محکموں کے جائزہ اجلاس طلب کرتے ہوئے احکامات جاری کررہے ہیں ۔ ون میان شپ والی اس خوبی کے ساتھ انہوں نے بجٹ بھی پیش کیا ہے تو ایک ذمہ دار باپ ہوتے ہوئے اپنے بیٹے کے لیے کچھ نہیں چھوڑنا ایسا ہو ہی نہیں سکتا ۔ یہ سیاسی حادثہ نہیں ہے بلکہ کے سی آر نے ایک منصوبہ بندی کی ہے جس کا ٹریلر لوک سبھا انتخابات میں جاری کیا جائے گا ۔۔
kbaig92@gmail.com