تلنگانہ پر وزارتی گروپ کی رپورٹ تیار، آج کابینہ میں غور

نئی دہلی 4 ڈسمبر (سیاست ڈاٹ کام) مرکزی کابینہ میں کل تلنگانہ پر رپورٹ اور نئی ریاست کی تشکیل کے سلسلہ میں مسودہ بل پر غور و خوض کیا جائے گا کیونکہ وزارتی گروپ نے اپنا کام آج رات پورا کرلیا ہے اور سمجھا جاتا ہے کہ مجوزہ ریاست میں رائلسیما کے دو اضلاع کے انضمام کی سفارش کی گئی ہے۔ مرکزی وزیرداخلہ سشیل کمار شنڈے نے تقریباً ایک گھنٹہ طویل اجلاس کے بعد آج ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہاکہ وزارتی گروپ نے اپنا کام پورا کرلیا ہے۔ کابینہ کے اجلاس میں اِن سفارشات پر غور و خوض کیا جائے گا۔ ذرائع نے بتایا کہ سمجھا جاتا ہے کہ رائلسیما کے دو اضلاع کرنول اور اننت پور کو مجوزہ نئی ریاست میں ضم کرنے کی وزارتی گروپ نے سفارش کی ہے حالانکہ ٹی آر ایس اور بعض کانگریس قائدین اِس تجویز کے سخت مخالف ہیں۔ کرنول اور اننت پور دو اضلاع کا حیدرآباد سے خاص تعلق رہا ہے اور یہاں مسلم آبادی بھی زیادہ ہے۔ تاہم قطعی فیصلہ کل مرکزی کابینہ ہی کرے گی۔ اگر یہ تجویز قبول کرلی جاتی ہے تب غیر منقسمہ آندھراپردیش کی دو ریاستوں میں مساوی تقسیم عمل میں آئے گی اور ہر ریاست کو 21 لوک سبھا، 147 اسمبلی اور 45 کونسل کی نشستیں حاصل ہوں گی۔ وزارتی گروپ نے آج منعقدہ اجلاس میں اثاثوں کی تقسیم، پانی کی حصہ داری، سرحدوں کی حد بندی اور آفیسرس کیڈر کی تقسیم جیسے مسائل پر تفصیلی غور و خوض کیا۔ سمجھا جاتا ہے کہ وزارتی گروپ نے دونوں ریاستوں کو دستور کی دفعہ 371-D کے تحت خصوصی موقف فراہم کرنے کی سفارش کی ہے۔ حیدرآباد کا مسئلہ بھی متنازعہ بنا ہوا ہے کیونکہ سیما آندھرا قائدین اُن کی جان اور مال کے تحفظ کا مطالبہ کررہے ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ آندھراپردیش کی تقسیم کے بعد وہ لوگ جو آندھرا سے منتقل ہوکر حیدرآباد میں بس گئے اُن کا تحفظ یقینی بنانا چاہئے۔ اِس ضمن میں ایک تجویز یہ ہے کہ دستور کی خصوصی دفعہ کے تحت لاء اینڈ آرڈر اور محکمہ مال کی ذمہ داری مرکزی حکومت کے تفویض کردی جائے۔ وزارتی گروپ کے آج منعقدہ اجلاس کی صدارت وزیرداخلہ سشیل کمار شنڈے نے کی۔ مرکزی وزراء اے کے انتونی، پی چدمبرم اور ویرپا موئیلی کے علاوہ دیگر نے اجلاس میں شرکت کی۔ وزارتی گروپ نے سمجھا جاتا ہے کہ آندھراپردیش تنظیم جدید بِل کے مسودہ کو آندھراپردیش اور تلنگانہ بِل کا نام دیا ہے تاکہ دستور میں ترمیم سے گریز کیا جاسکے اور دونوں ریاستوں کو خصوصی موقف حاصل ہو۔ سرکاری ذرائع نے یہ بات بتائی۔ دفعہ 371-D کو 1973 ء میں 32 ویں ترمیم کے ذریعہ شامل کیا گیا۔ اِس کے تحت صدرجمہوریہ کو ریاست کے مختلف حصوں سے تعلق رکھنے والے عوام کو مساوی مواقع فراہم کرنے کے لئے وقفہ وقفہ سے احکامات جاری کرنے کا اختیار ہے۔ اگرچہ سشیل کمار شنڈے نے یہ کہا ہے کہ تلنگانہ بِل پارلیمنٹ کے سرمائی سیشن میں متعارف کیا جائے گا لیکن غیریقینی صورتحال ہنوز برقرار ہے کیونکہ اِس بل پر غور کے لئے آندھراپردیش اسمبلی کو وقت کے تعین کا اختیار صدرجمہوریہ کے پاس ہے۔ صدرجمہوریہ کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ ریاستی اسمبلی کو کم از کم 10 دن کا وقت دیں جس کے بعد یہ بِل مرکز کو واپس بھیجا جائے گا۔ تاہم دستور کے تحت اسمبلی کی قرارداد لازمی نہیں ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ ماضی میں مدھیہ پردیش اسمبلی کو ریاست کی تقسیم کے بِل کے لئے اُس وقت کے صدرجمہوریہ نے 40 دن کا وقت دیا تھا۔ اِس کے بعد چھتیس گڑھ ریاست کی تشکیل عمل میں آئی۔ اگر صدرجمہوریہ آندھراپردیش اسمبلی کو 15 دن سے زائد کا وقت دیتے ہیں تو مرکز یہ بِل سرمائی سیشن میں پیش کرنے کے موقف میں نہیں رہے گا کیونکہ یہ سیشن 20 ڈسمبر کو ختم ہورہا ہے۔