تلنگانہ میں کارنامے کم، کارروائیاں زیادہ

اے پی ڈائری خیراللہ بیگ
ڈپٹی چیف منسٹر تلنگانہ ڈاکٹر ٹی راجیا کی برطرفی کے بعد سیاسی یار لوگوں کی تخیلانہ پرواز میں کے سی آر حکومت کے زوال کا اشارہ دیا جارہا ہے۔ کچھ نے مستقبل کا منظر نامہ بھی کھینچا ہے جبکہ حکمراں پارٹی کے تعلق سے یہ خبر بھی سرگرم ہے کہ وہ بہت جلد این ڈی اے میں شامل ہوکر مرکزی کابینہ میں پارٹی کی رکن پارلیمنٹ کویتا کو مرکزی وزیر بنانے کی کوشش میں ہے۔ کے سی آر کے حق میں ابھی اقتدار کی بلندیاں ناراض دکھائی نہیں دیتی اس لئے چیف منسٹر کے سی آر سے ابھی ایسی غلطیاں سرزد نہیں ہوئی ہیں کہ ان کے دشمن انھیں اقتدار سے بیدخل کرنے میں فی الحال کامیاب ہوسکیں۔ مرکز میں این ڈی اے کا حصہ بننے کی کوشش کرنے والی پارٹی تلنگانہ راشٹرا سمیتی کو اندرون خانہ بھی ناراضگیوں کا سامنا ہے۔ کے سی آر کے خاندان میں وزارتی قلمدانوں کو لے کر جھگڑا چل رہا ہے۔

کیونکہ کے سی آر نے اپنے فرزند کے ٹی راما راؤ اور بھانجے ہریش راؤ کو اپنی کابینہ میں وزیر بنایا ہے جبکہ کے سی آر کی دختر رکن پارلیمنٹ نظام آباد کویتا کو کوئی سیاسی بلندی یا اقتدار کی کرسی نہیں ملی ہے۔ کویتا کو مودی حکومت میں شامل کرنے کے لئے درپردہ مساعی جاری ہے۔ اس سلسلہ میں ٹی آر ایس اور بی جے پی کے چند پیروکاری کے ماہر سیاستداں غور و خوض کرنے لگے ہیں۔ عام انتخابات میں ٹی آر ایس نے تلنگانہ کے اقلیتی ووٹ سے محرومی کے ڈر سے بی جے پی سے ہاتھ نہیں ملایا تھا۔ تنہا انتخابات لڑنے کے بعد بھاری اکثریت سے کامیابی نے ٹی آر ایس کے سیاسی حوصلوں کو بلند کیا۔ لہذا تلنگانہ کے اقلیتوں کے بارے میں غور کرنا پارٹی کے سامنے اب فضول بات سمجھی جارہی ہے۔ دہلی میں پڑاؤ ڈالنے والے ٹی آر ایس قائدین بی جے پی کی مرکزی قیادت کو راضی کرانے میں مصروف ہیں۔ ٹی آر ایس کا احساس ہے کہ اسے تلگودیشم کی طرح مرکزی حکومت کا حصہ ہونا چاہئے تاکہ آندھراپردیش کی طرح تلنگانہ کو بھی مرکزی فنڈس کے حصول کی راہ ہموار کی جاسکے۔ ویسے کوئی حکومت کبھی اپنی مشکلات میں اضافہ کا باعث نہیں بنتی بلکہ صبر و تحمل اور تدبر سے معاملات پر قابو پانے کی کوشش کرتی ہے مگر تلنگانہ میں سب کچھ الٹ دیکھا جارہا ہے۔ ڈپٹی چیف منسٹر ڈاکٹر ٹی راجیا کی برطرفی کے بعد تلنگانہ کے تمام وزراء میں خوف پیدا ہوگیا ہے لہذا رشوت ستانی کے معاملے میں ہر کوئی محتاط ہوچکا ہے۔ مگر ایک اور ڈپٹی چیف منسٹر کو بھی اپنی باری کا انتظار ہے تو ان کے خلاف چیف منسٹر کے کان بھرنے والے کب کامیاب ہوتے ہیں، یہ وقت ہی بتائے گا۔ چیف منسٹر اپنی پیشی میں ہونے والی دھاندلیوں سے عوام اور پارٹی قائدین، کابینی رفقاء کی نظروں سے بچانے کے لئے کچھ سخت اقدامات یا ڈرا دھمکا کر خاموش رکھنے کی ترکیب پر عمل کررہے ہیں۔ ٹی راجیا کی برطرفی کے بعد تلنگانہ کابینہ کا ہر وزیر اندر ہی اندر باغیانہ سوچ کا تحفظ کرتے نظر آرہا ہے۔

اگر ایسا ہوا تو باغی گروپ بھی بہت جلد اُبھر کر سامنے آئے گا۔ ٹی آر ایس میں پھوٹ پڑنے کا انتظار کرنے والی پارٹیوں کو اس گھڑی کا انتظار ہے کہ کے سی آر سے دوسری غلطی کب سرزد ہوجائے گی۔ تلنگانہ میں بحران پیدا کرنے کی کوششیں کرنے والوں کے درمیان دبے دبے لفظوں میں وہی باتیں ہورہی ہیں جن کو صرف سمجھنے والے سمجھتے ہیں۔ تلگودیشم حلقوں میں خیال زور پکڑ رہا ہے کہ پارٹی کو تلنگانہ کے سیاسی حالات کا فائدہ اُٹھانے کیلئے تیار رہنا چاہئے جبکہ حقیقت تو یہ ہے کہ تلگودیشم کے کئی قائدین اس وقت ٹی آر ایس حکومت میں وزارتی قلمدان رکھتے ہیں۔ کے سی آر کابینہ کے 18 کے منجملہ 10 وزراء کا تلگودیشم کے منحرف گروپ سے ہے۔ خود چیف منسٹر تلگودیشم کے منحرف لیڈر ہیں۔ ماضی میں تلگودیشم نے تلنگانہ ریاست کے قیام کی شدید مخالفت کی تھی۔ چندرابابو نائیڈو کی کابینہ میں خدمت انجام دینے والے دیگر وزراء میں کے سی آر کے علاوہ دیگر وزراء جنھوں نے تلگودیشم پارٹی سے انحراف کیا تھا کڈیم سری ہری، نینی نرسمہا ریڈی، پوچارم سرینواس ریڈی، تلسانی سرینواس یادو، ٹولا ناگیشور راؤ، پی مہندر ریڈی، جوگو رمنا، ڈاکٹر لکشما ریڈی اور اجمیرا چندولال شامل ہیں۔ دیگر چار وزراء کا تعلق سابق میں کانگریس پارٹی سے رہا ہے، ان میں ٹی پدما راؤ، جوپلی کرشنا راؤ، جی جگدیش ریڈی اور اندرا کرن ریڈی قابل ذکر ہیں۔ ٹی آر ایس پارٹی کے بانی قائدین میں صرف کے ٹی راما راؤ، ٹی ہریش راؤ، ایٹالا راجندر اور محمود علی ہی شروع سے پارٹی کے وفادار رہے ہیں۔ انھیں کسی قسم کا خطرہ بھی نہیں ہوسکتا البتہ منحرف قائدین اور وزراء کی بے چینی بڑھتی جارہی ہے۔ ان کے اندر پیدا ہونے والے انتشار کے بطنسے جو چیز داؤ پر لگ رہی ہے وہ کے سی آر کی حکومت کا مستقبل ہے۔

آئندہ چند دنوں میں تلگودیشم نے اپنا مورچہ مضبوط کرکے ٹی آر ایس حکومت کی خرابیوں کے خلاف مظاہرے شروع کردیئے تو حالات کروٹ بدلنے میں دیر نہیں ہوگی۔ تلگودیشم ابھی سے یہی کہہ رہی ہے کہ کے سی آر کی کابینہ کھچڑی حکومت ہے۔ گزشتہ 8 ماہ کی حکمرانی کے دوران ٹی آر ایس صدر نے تمام اخلاق اور اُصولوں کو بالائے طاق رکھا ہے۔ تلگودیشم نے کے سی آر کے اس حربے کی طرف اشارہ دیا ہے کہ وہ انسداد انحراف قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے دیگر پارٹیوں میں پھوٹ ڈالنے اور انحراف کو ہوا دینے کی کوشش کررہے ہیں۔ نظر تو یہی آرہا ہے کہ تلنگانہ کو نئے سیاسی بحران کے بھنور میں پھانسنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اس سے بچ نکلنے کے لئے کے سی آر کو اپنا سیاسی مہرہ چلانے کی ضرورت ہوگی۔ کیوں کہ ان کی پڑوسی ریاست آندھراپردیش کے چیف منسٹر این چندرابابو نائیڈو نے عالمی سطح پر اپنی ریاست کو متعارف کرانے کی کوشش کی ہے۔ حال ہی میں ڈاؤس میں منعقدہ ورلڈ اکنامک فورم کی کانفرنس میں عالمی سرمایہ کاروں کو ریاست آندھراپردیش میں سرمایہ کاری کے لئے ترغیب دی ہے۔ مائیکرو سافٹ کے بل گیٹس سے نائیڈو کی ملاقات آندھراپردیش میں آئی ٹی شعبہ کو فروغ دینے کی ایک کوشش ہے۔ انھوں نے عظیم پریم جی، اندرا نوئی سے بھی ملاقات کی ہے۔ تلنگانہ کے چیف منسٹر کو اگرچیکہ انٹرنیٹ سرچ گروپ میں نائیڈو پر سبقت حاصل ہے مگر سرمایہ کاروں کی نظر میں کے سی آر ہنوز دور ہی دکھائی دیتے ہیں۔ سوائن فلو کے مریضوں کی تکلیف اور ریاست تلنگانہ میں سوائن فلو کے بڑھتے خطرات کو سمجھنے والے چیف منسٹر کے چندرشیکھر راؤ نے اپنے ڈپٹی چیف منسٹر کو سوائن فلو کا شکار بنادیا ہے تو دیگر وزراء کو اس سوائن فلو وائرس سے بچنے کے لئے اپنے چہروں پر چیف منسٹر کے عتاب سے بچنے کے لئے فیس ماسک لگانے کے لئے مجبور ہونا پڑرہا ہے۔
kbaig92@gmail.com