تحتیہ الوضو

سوال : تحتیہ الوضو کے بارے میں سنا جاتا ہے ۔ وضو کرنے کے بعد دو رکعت نفل نماز پڑھنی چاہئے ۔ اس کا بہت ثواب ہے ۔اس کی کیا حیثیت ہے۔کیا یہ فرض ہے یا سنت ہے ؟
کیا احادیث شریفہ میں تحتیہ الوضو اور اس کی فضیلت کا کوئی ذکر ہے یا یہ بزرگان دین کے عمل سے ثابت ہے ۔ اس کے اوقات کیا ہیں؟
محمد بختیار علی ، محبوب نگر
جواب : تحتیہ الوضو کی فضیلت احادیث سے ثابت ہے ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : مامن احد یتوضا فیحسن الوضو ء و یصلی رکعتین یقبل بقلبہ وبو جھہ علیھما الا وجبت لہ الحسنۃ۔
ترجمہ : جو کوئی وضو کرتا ہے اور اچھی طرح وضو کرتا ہے اور دو رکعت نماز خشوع اور خضوع سے ادا کرتا ہے تو اس کیلئے ضرور جنت واجب ہوگی۔ (امام ابود اور امام مسلم نے اس کی روایت کی ہے)
مستدرک کتاب الطھارۃ ، باب فضیلۃ تحتیہ الوضو میں حضرت عمر وبن تنبسۃ (تابعی) سے روایت ہے کہ حضرت ابو عبید نے ان سے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک نہیں ، دو نہیں، تین نہیں کئی مرتبہ سنا ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے۔ جب بندہ مومن وضو کرتا ہے اور کلی کرتا ہے ، ناک میں پانی چڑھاتا ہے تو اس کے منہ کے اطراف سے گناہ خارج ہوجاتے ہیں اور جب وہ اپنے دونوں ہاتھ دھوتا ہے تو اس کے ناخن سے گناہ نکل جاتے ہیں۔ جب وہ اپنے سر کا مسح کرتا ہے تو سر کے اطراف سے خطائیں جھڑجاتی ہیں اور اگر وہ کھڑے ہوکر دو رکعت نماز خشوع و خضوع سے ادا کرتا ہے تو وہ اپنے گناہ سے ایسے نکل جاتا ہے جیسے اس کی ماں نے اس کو جنا ہے۔
عن عمر و بن عنبسۃ ، ان أبا عبید، قال لہ : حدثنا حدثیا سمعتہ من رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال : سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غیرۃ مرۃ ولا مرتین ولا ثلاث یقول : اذا تو ضأ العبد المومن فمضمض و استنثر خرجت الخطایا من اطراف فمہ فاذا غسل یدیہ تناثرت الخطایا من اظفارہ ، فاذ مسح براسہ تناثرت الخطایا من اطراف رأسہ ، فان قام و صلی رکعتین یقبل فیھما لقلبہ و طرفہ الی اللہ عزو جل خرج من ذنوبہ کما ولدتہ امہ ۔
(اس حدیث کی سند امام بخاری اور امام مسلم کی شر ط کے مطابق ہے)
پس تحتیہ الوضو کی دو رکعت نفل نماز پڑھنا مندوب و مستحب ہے۔ ممنوع و مکروہ (یعنی طلوع آفتاب اور اس سے قبل ، زوال آفتاب ، غروب آفتاب اور اس سے قبل یعنی عصر کے بعد) کے علاوہ کسی بھی وقت وضو کے فوری بعد دو رکعت پڑھنا مستحب ہے ۔ رد المحتار جلد اول ص 141 دارالفکر بیروت مطلب فی التمسح بمندیل میں (و صلاۃ رکعتین فی غیر وقت کراھۃ) کے تحت منقول ہے : ھی الاوقات الخمسۃ الطلوع و ماقبلہ والاستواء والغروب وما قبلہ بعد صلاۃ العصر ، و ذلک لان ترک المکروہ او لھا من فعل المندوب کما فی شرح المنیۃ۔

ائمہ اربعہ میں کس کی ولادت سب سے پہلے ہوئی
سوال : میں نے سنا کہ چار ائمہ میں سب سے پہلے حضرت امام مالک کی ولادت ہوئی، اس کے بعد حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رحمتہ اللہ علیہ کی ولادت ہوئی۔ بعض کہتے ہیں کہ امام اعظم کا زمانہ پہلے کا ہے ۔ براہ کرم آپ سے التجا ہے کہ ائمہ اربعہ میں سب سے پہلے کس کی ولادت ہوئی اور ان کی عمر یں کتنی رہیں بیان فرمائیں ؟
محمد عبدالشکور، مصری گنج
جواب : ائمہ اربعہ میں سب سے پیشرو حضرت امام اعظم ابو حنیفہؒ ہیں، آپ کی ولادت 80 ھ میں ہوئی اور آپ 150 ء میں رحلت فرمائے ۔ آپ کی کل عمر ستر (70) برس تھی۔ امام مالک رحمتہ اللہ کی ولادت 90 ھ میں ہوئی اور آپ 179 ء میں وفات پائے، آپ کی کل عمر (89) رہی۔ حضرت امام شافعیؒ 150 ھ میں پیدا ہوئے اور 204 ھ میں انتقال کئے اور 54 سال حیات رہے۔ امام احمد بن حنبل 164 ھ میں تولد ہوئے اور 241 میں فوت ہوئے۔ اس طرح آپ جملہ 77 سال حیات رہے۔
لہذا ائمہ اربعہ میں سب سے پہلے ولادت حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رحمتہ اللہ علیہ کی ہوئی اور سب سے طویل عمر حضرت امام مالک رحمتہ اللہ علیہ پائے ۔ (تفصیل کیلئے دیکھئے رد المختار جلد اول ص 71 مطبعہ دارالفکر بیروت)
’’گھر سے نکل جا ، چلی جا ‘‘ کہا تو کیا حکم ہے
سوال : کیا فرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ میں کہ میاں بیوی میں جھگڑا ہوا۔ میاں نے کہا کہ ’’ گھر کام نہیں کرنا ہے ‘‘ یا ’’ میرا کام نہیں کرنا ہے ‘‘ یا ’’ میری بات نہیں ماننا ہے ‘‘ تو ’’ گھر سے نکل جا‘‘ ، ’’ چلی جا ‘‘ کہہ کر دھکیل دیا ۔ برائے مہربانی قرآن و حدیث کی روشنی میں مدلل جواب عنایت فرمائیں۔ برائے مہربانی فقرہ واری جواب عنایت فرمائیں ۔
۱۔ ’’ گھر سے نکل جا‘‘ تین مرتبہ کہتے ہوئے دھکیل دینے پر کیا حکم ہے ؟
۲ ۔ بیوی کے ذمہ شوہر کے بالغ (5 یا 6 ) بھائیوں کا کام کرنا ہے یا نہیں ۔ اس کا کیا حکم ہے ؟
۳ ۔ بیوی اگر بیمار ہو تو اس کے ذمہ ماں باپ یا شوہر کی خدمت بیماری کی حالت میں کرنا لازم ہے یا نہیں اس کا کیا حکم ہے ؟
۴ ۔ شوہر کہے کہ میرے ماں باپ اور بھائیوں کی خدمت کرو وہ اگر خوش ہیں تو میں بھی خوش ہوں ورنہ میں بھی تم سے ناراض ہوں تو اس کے لئے کیا حکم ہے ؟
۵ ۔ بیوی بیماری کی وجہ سے شوہر سے یہ کہے کہ آپ کو صبح جانا ہے اس لئے میں آپ کا جو کام ہے وہ صبح آپ کے جانے سے پہلے کردیتی ہوں اب اس وقت میری طبیعت بہت خراب ہے اور شوہر کہے کہ ’’ نہیں ابھی یعنی رات میں ہی یہ کام کردو‘‘ اور پھر اسی بات پر شوہر مذکورہ بالا فقرہ نمبر (۱) کہتا ہوا دھکیل دیا تو اس کے لئے کیا حکم ہے ؟
۶ ۔ تین منزلہ بلڈنگ میں اوپری تیسری منزل پر باورچی خانہ ہے اور دوسری اور پہلی منزل پر رہائش ہے تو صبح سے شام تک اوپر سے نیچے آنے جانے میں بیوی کے پیروں میں درد ہوگیا ہے تو اس کیلئے شوہر پر کیا ذمہ داری ہے جبکہ شوہر کہتا ہے کچھ بھی ہو تم کو کام کرنا ہی کرنا ہے تو اس کیلئے کیا حکم ہے ؟ (اور اسی وجہ سے حمل بھی ضائع ہوتا جارہا ہے)
۷ ۔ شوہر صبح سات (7) بجے جاکر رات میں (11) یا (12) بجے تک آتا ہے ۔ اس اثناء میں ماں طعنہ تشنہ سے کام لیتی ہے جس کی وجہ سے بیوی کو مرض دق لاحق ہوگیا ہے تو اب اس پر شوہر کی کیا ذمہ داری ہے اور اس کا حکم کیا ہے ؟
۸ ۔ بیوی اب اپنے ماں باپ کے پاس ہی ہے مزاج کی ناسازی کی وجہ سے شوہر کے لوگ بات چیت کے لئے آرہے ہیں۔ برائے مہربانی قرآن و حدیث کی روشنی میں بیوی کے لئے کیا حکم ہے ، بتائیں تو مہربانی ہوگی ؟
ای میل
جواب : ۱ ۔ ’’گھر سے نکل جا‘‘ ’’ چلی جا‘‘ کنایہ کے الفاظ ہیں اور اسمیں نیت کا اعتبار ہے طلاق کی نیت تھی تو طلاق ہوگی ورنہ نہیں۔
۲ ۔ بیوی کے ذمہ یہ کام واجب نہیں ہے۔
۳ ۔ حسب طاقت شوہر کی خدمت کرے۔ ساس سسر کی خدمت کرنا واجب نہیں۔
۴ ۔ شوہر کو راضی رکھنے کیلئے خدمت کرسکتی ہے۔
۵ ۔ شوہر کا عمل غیر شرعی ہے۔ نیت طلاق کی تھی تو طلاق ہوگی ورنہ نہیں۔
۶ ۔ دونوں آپس میں صلح کرلیں۔ بیوی بھی انسان ہے، انسانیت کو پیش نظر رکھیں۔ بیوی موزوں وقت اوپر جاکر باورچی خانہ کا مکمل کام کر کے اترے
۷ ۔ شوہر پر لازم ہے کہ ایسا انتظام کرے کہ بیوی کو اپنی ساس کے طعنے سننے کا موقع نہ ہو یا علحدہ مکان لے کر رکھے۔

میت کو کس طرح رکھنا چاہئے
سوال : جب کسی گھرمیں انتقال ہوجاتا ہے تو افراد خاندان کے چند لوگ مختلف باتوں میںاختلاف کرتے نظر آتے ہیں اور عموماً میت کو لٹانے ، میت کے بال میں کنگھی کرنے کے بارے میں اختلاف رائے ہوتاہے تو اس سلسلہ میں دو تین باتیں حل طلب ہیں۔ براہ کرم رہنمائی فرمائے۔میت کو شرعاً کیسا لٹانا چاہئے ، میت کو سمت قبلہ پیر کر کے لٹائیں یا جانب جنوب ، شرعا کیا حکم ہے ۔ میت کے بالوں کو ترشوانا یا اس میں کنگھی کرنا و ناخن ترشوانا کیسا ہے ؟
فرقان ، حسینی علم
جواب : میت کو بوقت غسل یا قبل غسل لٹانے کے متعلق چونکہ کوئی صراحت احادیث میں نہیں پائی گئی اس لئے یہ مسئلہ فقہاء و علماء کے درمیان استدلالی ہوگیا ہے، بعض فقہاء میت کو بیمار پر (ایسا بیمار جو بوقت نماز قیام و قعود پر قادر نہ ہو) قیاس کر کے یہ لکھا ہے کہ میت کو ایسا چت لٹایا جائے کہ اس کے پیر قبلہ کی جانب ہوں اور سر کے نیچے تکیہ و غیرہ دے کر اس قدر چہرے کو بلند کیا جائے کہ اگر میت کو ا ٹھایا جائے تو اس کا چہرہ قبلہ کی جانب ہوجائے لیکن یہ استدلال (بیمار پر میت کو قیاس) صغیف ہے بعض فقہاء نے مکان و مقام کا اعتبار کرتے ہوئے جیسی سہولت ہو میت کو لٹانے کی اجازت دی ہے۔ اکثر فقہاء نے میت کو قبر پر قیاس کر کے یہ حکم دیا ہے کہ میت کو ایسا لٹایا جائے ، جیسا قبر میں رکھا جاتا ہے یا بوقت نمازِ جنازہ میت کو رکھا جاتا ہے ، یہ قیاس اقرب الی الفہم و العقل ہے کہ اس میں قبلہ و کعبہ کے آداب بھی ملحوظ رہتے ہیں۔ قبلہ کی جانب پیر دراز کرنا خلاف ادب ہے جیسا کہ فتاوی عالمگیری جلد 5 ص : 219 میں ہے یکرہ مدالرجلین الی الکعبۃ فی النوم و غیرہ عمدا اور فتاوی تاتار خانیہ کتاب صلاۃ الخبائز ص : 133 ہے۔ یوضع علی تخت … کما یوضع فی القبر یعنی میت کو تخت پر ایسا لٹایا جائے جیسا کہ قبر میں لٹایا جاتا ہے ۔ میت کے بال داڑھی و سر میں کنگھی کرنا ناخن ترشوانا منع ہے جیسا کہ قدوری باب الجنائز میں ہے : ولا یسرح شعرالمیت ولا لحیتہ ولا یقص ظفرہ ولا یقص شعرہ ۔
دعاء میں صیغہ کی تبدیلی
سوال : ہمارے محلہ کی مسجد کے امام صاحب اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے پانچوں وقت کی نماز پڑھاتے ہیں۔ رہا سوال یہ کہ قرآن پاک میں لا الہ الا انت سبحنک انی کنت من الظلمین۔ لکھا ہے۔ لیکن ہمارے مسجد کے امام صاحب نماز کے بعد دعا کرتے وقت لا الہ الا انت سبحنک انا کنا من الظلمین پڑھتے ہیں۔ ان دونوں دعاؤں میں کونسی دعا پڑھنا درست ہے۔ براہ کرم ہمیں شرعی طور پر اس مسئلہ کا درست حل دیجئے مہربانی ہوگی ؟
محمد شفیع قریشی، نامپلی
جواب : ’’ انی کنت من الظلمین ‘‘ میں ’’ انی کنت ‘‘ واحد متکلم کا صیغہ ہے جس کے معنی میں اپنے نفس پر ظلم کرنے والوں میں سے ہوں اور ’’ انا کنا ‘‘ کے ساتھ پڑھیں تو اس وقت معنی یہ ہوں گے کہ ہم اپنے نفسوں پر ظلم کرنے والے ہیں۔ امام صاحب دعاء میں ’’ انا کنا ‘‘ پڑھتے ہیں تو مصلیوں کو اس میں شامل کرتے ہوئے جمع کا صیغہ پڑھتے ہیں جو کہ درست ہے اور اگر قرآن میں جو الفاظ واحد متکلم کے ساتھ آئے ہیں اس سے بھی پڑھ سکتے ہیں۔ جب قرآنی آیت میں واحد متکلم کے صیغہ کو جمع کے ساتھ بطور دعاء پڑھتے ہیں اور مصلیوں کو شک و شبہ پیدا ہورہا ہے تو بہتر یہی ہے کہ قرآنی آیت کو بلفظہ پڑھا جائے۔