بنگلہ دیش میں روہنگی پناہ گزین عورتیں روٹی کے لئے عزت فروخت کرنے پر مجبور

دوڈالرمیں روہنگی عورتوں کی عزت نیلام ہورہی ہے‘ بنگلہ دیش کے کوکس بازارمیں پناہ لئے ہوئے روہنگی عورتیں او ربچے جنسی کاروبار سے وابستہ جانوروں کے لئے نیا شکار دستیاب ہوگیاہے‘ بنگلہ دیش کے سیاسی قائدین اور طلبہ بھی بے بس اور مجبور روہنگیوں کی عزت کے خریداروں میں شامل
کوکس بازار۔

اسی سال 25اگست کو میانمار کی ریاست راکھین میں روہنگیوں پر تازہ حملوں کے بعد چھ لاکھ کے قریب روہنگی اپنی جان بچانے کے لئے راکھین سے فرار ہوکر بنگلہ دیش پہنچے اور میانمار سے لگے بنگلہ دیش کے سرحدی علاقے کوکس بازار میں حکومت بنگلہ دیش اور اقوام متحدہ کے اشتراک سے قائم کئے گئے پناہ گزین کیمپ میں مقیم ہیں۔

حالانکہ مذکورہ پناہ گزین کیمپ بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں مگر جان بچانے کے لئے راکھین سے کوچ کرکے یہاں پر پہنچے روہنگی پناہ گزین مذکورہ کیمپ میں کسی طرح اپنا گذر بسر کرنے پر مجبور ہیں۔نیوز ایجنسی رائٹر کی ایک چونکا دینے والی جانکاری کے مطابق مذکورہ کیمپس میں روہنگی دانے دانے کو محتاج ہیں اور اور روہنگی خواتین اپنے عزت نیلام کرکے اپنے اور اپنے بچوں کے لئے کھانا حاصل کررہی ہیں۔بنگلہ دیش میں پہلے سے ہی ایک پناہ گزین کیمپ ہے اور اب چھ لاکھ روہنگی مسلمان یہاں پر پہنچے ہیں جس کے بعد بنگلہ دیش میں جسم فروشی کا ریاکٹ چلانے والے درندوں کے لئے نیاشکار مہیا ہوگیا ہے۔

مذکورہ کیمپس میں ویلن کا رول کردار نبھانے والے نور کا کہنا ہے کہ کم سے کم س پانچ سوروہنگی خواتین پیسوں کے لئے اپنی عزت نیلام کررہی ہیں۔ جسم فروشی کے ریاکٹ سے وابستہ لوگوں کو نئے مہاجرین کی شکل میں نیا شکار مل گئے ہیں۔سال1992میں بنگلہ دیش کے کٹوپلانگ میں روہنگی پناہ گزین کیمپ قائم کیاگیاتھا ۔ اقوام متحدہ کا دعوی ہے کہ روہنگی خواتین کو جنسی کاروبار کے دلدل میں دھکیل دیاگیا ہے مگر اس کے پاس صحیح معنی میں اعداد وشمار موجود نہیں ہیں۔ اقوام متحدہ کی ایک او رکمیٹی نے بھی کہاکہ اس طرح کے کاروبار میں ملوث افراد کے اعدادوشمار کا حقیقی اندازہ لگانا مشکل ہے۔

حالیہ دنوں میںیونسیف نے بھی ایک رپورٹ جاری کرتے ہوئے اس بات کا خدشہ ظاہر کیاتھا کہ بنگلہ دیش کے پناہ گزین کیمپ کی عورتیں او ربچے استحصال کا شکار بن سکتے ہیں۔ عموما روہنگی مسلمانوں کو قدامت پسند سمجھا جاتاہے مگر ایسے لوگ بھی تنگ دستی ‘ مفلسی کی وجہہ سے کافی پریشان ہوگئے ہیں او راپنی عورتوں کی عزت نیلام ہونے پر بھی آنکھیں بند کرکے خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ نور نے کہاکہ ان میں زیادہ تر نوخیز لڑکیاں ہیں جس میں ایک متاثرہ لڑکی رینا ( 18)سال کی ہے جو پچھلے ایک دہے سے کیمپ میں رہ رہی ہے۔

اپنی حالت زار بتاتے ہوئے رینا نے کہاکہ ’’ میرے والدین نے ایک شرابی سے شادی کرادی ‘ وہ میرے سے نہایت برا سلوک کرتاتھا مجھے بری طرح پیٹتا بھی تھااور ایک روز وہ مجھے میرے ایک سال کے بچے کے ساتھ چھوڑ کر چلاگیا ۔ میرے پاس بچے کو کھلانے کے لئے کچھ نہیں تھااور اسی وجہہ سے میں جسم فروشی کے لئے مجبور ہوگیا۔رینا نے روتے ہوئے بتایا کہ وہ یہ کام صرف پیسے کے لئے کررہی ہے۔ اسی طرح کے خیالات کا اظہار 14سال کی ایک بچی قمرہ نے بھی کیا۔ قمرہ کے مطابق وہ کیمپ میں ہی بڑی ہوئی او ربچپن سے بھوک او رمفلسی کودیکھااور انہیں باتوں کی وجہہ سے عصمت فروخت کرنے پر مجبور ہوگئی

مختلف تنظیموں او راداروں کی رپورٹ سے یہ بات تو صاف ہوگئی ہے کہ بنگلہ دیش کے پناہ گزین کیمپوں میں رہنے والے لوگ بھوک او رمفلسی کاشکار ہیں۔ ان میں رومیدہ بھی شامل ہے جس کے پاس اب زندگی گذارنے کے لئے صرف جسم فروشی کا ہی راستہ رہ گیا ہے۔ ایک ہزار ٹکا کے عوض میں اس کی عصمت خریدی جاتی ہے ۔ رومیدہ کا کہنا ہے کہ دوڈالر میں ناصرف ملک کی معززشخصیتیں بلکہ یونیورسٹی طلبہ بھی ان کی عصمت کی بولی لگاتے ہیں۔