بنارس ہندویونیورسٹی میں طلبہ کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کا واقعہ۔ احتجاج میں لڑکیوں نے منڈوایا سر

بنارس۔ جمعرات کے روز چھ بجے کے قریب میں بنارس یونیورسٹی میں ہاسٹل کے باہر تین لوگوں نے مبینہ طور پر ایک طلبہ کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی۔ یونیورسٹی انتظامیہ کی مبینہ خاموشی کے خلاف طلبہ نے اس واقعہ پر بڑے پیمانے کا احتجاج بھی کیا۔متاثرہ لڑکی کی ایک ساتھی نے بتایا کہ جمعرات کے رو ز چھ بجے کے قریب موٹر سیکل پر سوار تین لوگ نے اس کی ساتھی کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی اور اس کا راستہ روکنے کی بھی کوشش کی۔مذکورہ عناصر نے لڑکی کے کرتے میں بھی ہاتھ ڈالنے کی کوشش کی۔

جب متاثرہ لڑکی نے یونیورسٹی میں تعینات حفاظتی افیسر سے اس واقعہ کی شکایت کی تب محافظ نے اس کی شکایت کی سچائی پر ہی سوال کھڑے کردئے۔ یونیورسٹی انتظامیہ نے کاروائی کے بجائے لڑکی کو مشورہ دیا کہ وہ شام چھ بجے سے لیکر صبح تک باہر نہ نکلے۔خبر ہے کہ یونیورسٹی کے پروٹکٹر سربراہ نے لڑکی سے کہاکہ وہ اس بات بات کو بھول جائے کیونکہ ٹاؤن میں وزیر اعظم کا دورہ ہے۔

انتظامیہ کے رویہ پر تشویش ناک حالت کا شکار لڑکی نے اپنے ردعمل میں دیگر ساتھیوں کے ساتھ ملکر وی سی دفتر کے باہر آدھی رات کو دھرنا منظم کیا اور بی ایچ یو یونیورسٹی کے خلاف نعرے لگائے۔طالبات کو اس کیس میں لڑکوں کی بھی مدد حاصل ہے۔ احتجاج کرنے والے طلبہ کا مطالبہ ہے کہ عورت کی حفاطت کے ساتھ کھلواڑ کرنے والوں کے خلاف سخت کاروائی کی جائے ۔ ان کا الزام ہے کہ یونیورسٹی انتظامیہ کا رویہ خواتین کی حفاظت کے تئیں غیر سنجید ہ ہے۔ احتجاج کررہے ایک طالب علم نے کہاکہ ’’ بنارس ہندویونیورسٹی میں ہراسانی کاشکار ہونا ایک عام بات ہے۔ اس طرح کے واقعات یہاں پر روز رونماء ہوتے ہیں‘‘ ۔

خبر تو اس بات کی بھی ہے کہ ہراسانی کاشکار ہونے کے بعد بہت سارے طلبہ نے اپنی تعلیم کو سلسلے کو ہی منقطع کرلیاہے۔ایک او رلڑکی نے شکایت کی ہے کہ لڑکی ان کے ہاسٹل کے روم کی کھڑکی سے پتھر میں لپیٹ کر خط پھینکتے ہیں۔ لڑکی کا کہنا ہے کہ’’ شام کے وقت لڑکیوں کا یہاں پر چہل قدمی کرنا بھی مشکل ہوگیاہے‘‘۔ خود کو بدشکل ثابت کرنے کی غرض سے چند ایک لڑکیو ں نے احتجاج کے طور پر اپنے سر بھی منڈوالئے ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ ہراسانی اور چھیڑ چھاڑ سے بچنے کا ان کا پا س یہی ایک طریقہ رہ گیا ہے۔