بابری مسجد کا معاملہ عدالت کے باہر سلجھانے پر دانشوروں کا شدید رد عمل

نئی دہلی:۔ مسلم دانشوروں اور علماء کے ایک وفد کے ذریعہ بابری مسجد معاملہ کو عدالت کے باہر سلجھانے کے لئے ’ آرٹ آف لیونگ‘ کے بانی شری شری روی شنکر سے ملاقات کو لے کر مسلم حلقوں میں نارضگی پائی جا تی ہے۔ماضی میں بابری مسجد کو لے کر بہت سارے مذاکرات اور کوششیں کی گئی ہیں۔لیکن کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔اور اب عدالت نے واضح کیا کہ یہ مسئلہ جگہ کا ہے عقیدہ کا نہیں۔

اس ملاقات پر ملک کے نامور مسلم دانشوروں اور علماء نے اپنے شدید رد عمل کا اظہار کیا۔اور اس ملاقات کو بے معنی بتا یا ہے۔اورمسلم پرسنل لاء بورڈ کو ان کے خلاف سخت کارروائی کر نے کی مانگ کی گئی۔معروف مفکر پروفیسر اخترالواسع نے کہا کہ کسی کے ملنے پر کوئی پابندی نہیں ہونی چاہئے۔

جہاں تک شری شنکر سے مسلم دانشوروں کی ملاقات کا مسئلہ ہے ان میں جتنے لوگ ہیں ان کی نیت پر شک نہیں کر سکتے ہیں مگراب عدالت عظمیٰ نے خود واضح کر دیا کہ یہ جگہ کا مسئلہ ہے عقیدہ کا نہیں۔تب ہمیں عدالت کے فیصلہ کا انتظار کر نا چاہئے۔دہلی اقلیتی کمیشن کے چیر مین ڈاکٹر ظفر الاسلام نے کہا کہ بابری مسجد کوشہید کیا جا چکا ہے ۔

اور بات اب بہت آگے بڑھ چکی ہے تب بغیر سوچے سمجھے کچھ نہیں کہنا چاہئے۔انہوں نے کہا کہ شری شری شنکر جب شروعات میںیہ مسئلہ اٹھایا تھا تب کیس کے فریق وی ایچ پی نے مخالفت کی تھی تب ان پر کون اعتبار کر سکتا ہے۔شاہی مسجد فتح پوری کے امام ڈاکٹر مفتی مکرم احمد نے کہا کہ بابری مسجد مذاکرات ہوئے ہیں لیکن کوئی حل نہیں سکا۔اب سپریم کورٹ کو فیصلہ کرنا ہے جس پر امت مسلمہ متفقہ ہیں۔

انھوں نے کہا کہ اس وفد میں علماء بھی شامل تھے۔انھوں نے کہا کہ چند علماء مسجد کو لے کر کسی دوسرے مقام پر لے جا نے کا فیصلہ کیسے کرسکتے ہیں یہ کوئی عام گھر نہیں ہے۔انھوں نے بورڈ سے ان کے خلاف سخت ایکشن لینے اور ایسے کارروائیوں پر بورڈ کو نظر رکھنے کا مطالبہ کیاہے۔آل انڈیا مسلم مشاورت کے صدر نوید حامد نے کہا کہ مس لا نا سید سلمان حسینی ندوی اور دیگرکی شری شنکر سے بابری مسجد کے مسئلہ کو عدالت کے باہر سلجھانے پر ہو ئی ا س میٹنگ پر کہا کہ یہ میٹنگ نے معنی ہے۔

کیوں کہ بغیر فریقین کے یہ مسئلہ حل نہیں ہو سکتااور اسے اب عدالت کرے گی۔یہ لوگ اتنے ہی سنجیدہ تھے تو کیا ان لوگوں نے دوسرے معروف دانشوروں سے مشاورت کی؟انہوں نے کہا کہ اصل میں مولانا ندوی ابو بکر بغدادی کو خط لکھ کر حکومت کی نظروں میں آگئے ہیں۔ان پر سرکار کا دباؤ ہے۔ اور مسٹر شنکر کو حکومت کی نظروں میں رہنے کے ساتھ اپنی سیاست چمکانا ہے اور نوبل ایوارڈ لینے کی خواہش ہے۔وسیم احمد غازی نے کہا کہ بابری مسجد معاملہ میں سبرامنیم سوامی جیسے لوگوں کو فریق ماننے سے انکار کر دیا ہے۔

اور کہا کہ یہ معاملہ جگہ کا ہے عقیدہ کا نہیں ہے۔انھوں نے کہا کہ شری شری روی شنکر سوامی کے شاگرد ہیں اور آر ایس ایس کے اشاروں پر کام کرتے ہیں ۔انھوں نے کہا کہ جو شخص سپریم کورٹ کا حکم نہیں مانتا اور این جی ٹی کا فیصلہ نہیں مانتا اور جس پر کریمنل چارجس ہے وہ اس مسئلہ کو سلجھانے جا رہا ہے۔وسیم احمد نے مزید کہا کہ جو مسلم دانشور اور علماء ا س مسئلہ پر ملاقات کررہے ہیں وہ آر ایس ایس اور بی جے پی قائدین سے جڑے ہوئے ہیں۔