اے ایم یو کے اقلیتی موقف کا معاملہ ہائی کورٹ کی سات رکنی بنچ کے پاس پہنچا

نئی دہلی۔ سپریم کورٹ نے منگل کے روز علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی موقف کے اردگرد چکر لگاتے ہوئے تنازع کو ایک سات رکنی بنچ کے سپر د کردیا جو نصف صدی قبل ادارے کے اقلیتی موقف کے متعلق سپریم کورٹ کی جانب سے سنائے گئے فیصلے پر غور کرے گی۔

چیف جسٹس آف انڈیا رنجن گوگوئی اور جسٹس ایل ناگیشوارراؤ ‘ سنجیو کھنہ کی ایک بنچ نے معاملے کو بڑی بنچ کے حوالے کیاکیونکہ اے ایم یو کے وکیل راجیودھون اور نکھل نیر نے عزیز باشاہ کیس میں پانچ ججوں کی بنچ کے اندر 1967کے فیصلے میں تضاد کی طرف اشارہ کیا۔

ایک طرف سپریم کورٹ کے احکامات میں کہاگیاکہ وہ یونیورسٹی جہاں پر مجسمہ نصب ہیں اس کو اقلیتی ٹیگ نہیں دیاجاسکتا ‘ اور دوسری طرف اس میںیہ بھی کہاگیاتھا کہ قائم کرنے والوں نے اس کی اقلیتی ادارے کے طور پر پہچان بنائی ہے۔

کئی لوگوں نے الہ آباد ہائیکورٹ کے 2006میں دئے گئے فیصلے کے خلاف درخواستیں داخل کی تھیں جس میں اس بات کو محسوس کیاگیاتھا کہ 1967میں سپریم کورٹ نے جو احکامات جاری کئے تھے اس میں اے ایم یو ایک اقلیتی ادارہ قرارد نہیں دیاہے کیونکہ اس کا قیام پارلیمنٹ کے قانون کے تحت عمل میں آیاہے۔

اس کی طرح کا چیالنج کانگریس کی زیرقیادت یوپی اے حکومت میں اور اے ایم یو کی جانب سے بھی کیاگیاتھا۔سال2016اپریک میں این ڈی اے حکومت نے سپریم کورٹ سے کہاکہ تھا وہ ہائی کورٹ کے خلاف دائر درخواست سے دستبرداری اختیار کرنا چاہتی ہے کیونکہ عزیز باشاہ فیصلے میں صحیح قوانین کا استعمال کیاگیاہے۔ مزے دار بات یہ ہے کہ تین سال کا عرصہ گذر جانے کے بعد بھی مرکز کی زبانی درخواست بے معنی پڑی ہے۔

سال1920میں نافد اے ایم یو ایکٹ کو تحلیل کرتے ہوئے محمڈن انگلو اروینٹل ( ایم اے او) قائم میں اسکو تبدیل کردیاگیاتھا۔پارلیمنٹ نے 1951میں اے ایم یو( ترمیم) ایکٹ کو منظوری دی اور اس کو مسلم نظریہ کے لازمی ہدایت سے دور کردیاگیاتھا۔

مذکورہ ترمیم نے اے ایم یو کے لئے غیرمسلم ممبرشب کو کھول دیا۔مزید ہنگامی تبدیلی 1966میں متعارف کی گئی‘ جس کو عزیز باشاہ نے سپریم کورٹ میں چیالنج کیا۔

سپریم کورٹ نے1967میں درخواست کو مستر د کرتے ہوئے یہ کہاکہ ا ے ایم یو ایک اقلیتی ادارہ نہیں ہے کیونکہ اس کا قیام پارلیمنٹ ایکٹ تحت عمل میں آیاہے اور اسکو کسی مسلمان نے تیار نہیں کیاہے

۔سال2004میں پی جی میڈیکل میں کورس میں مسلمانوں پچاس فیصد تحفظا فراہم کئے گئے جس کو الہ آبادہائیکورٹ میں چیالنج کیاگیا ‘جس میں2005اور2006میں عزیز پاشاہ کیس میں سپریم کورٹ کا کے فیصلے پر کوٹہ کوغیردستوری قراردیاگیا۔