’’ایودھیا میں بابری مسجد کے بجائے حسین آباد میں مسجد امن تعمیر کی جائے‘‘

شیعہ وقف بورڈ کی انوکھی تجویز ، ایودھیا کی اراضی سے دستبرداری کا اعلان ، سپریم کورٹ میں تجویز کی پیشکشی
لکھنو ۔20 نومبر ۔( سیاست ڈاٹ کام) ایودھیا میں جاری بابری مسجد ۔ رام جنم بھومی تنازعہ آج ا س وقت ایک نیا موڑ اختیار کرلیا جب سنٹرل شیعہ وقف بورڈ نے ایودھیا میں مسلمانوں کو دی گئی اراضی سے دستبرداری اختیار کرلی اور ایودھیا میں بابری مسجد کے بجائے لکھنو کے علاقہ حسین آباد میں ’’مسجد امن ‘‘ تعمیر کرنے کی تجویز پیش کی ۔ تاہم آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے سکریٹری اور سنی سنٹرل وقف بورڈ کے وکیل ظفریاب جیلانی نے اس تجویز کو مضحکہ خیز قرار دیتے ہوئے مستر کردیا اور کہاکہ اس معاملہ میں شیعہ وقف بورڈ کا دعویٰ 1946 ء میں ہی ختم ہوگیا تھا ۔ شیعہ وقف بورڈ نے کہا کہ اس نے سپریم کورٹ میں تجویز کا مسودہ داخل کیاہے جس کے ذریعہ ایودھیا کے پیچیدہ مسئلہ کی خوشگوار انداز میں یکسوئی پر زور دیا گیا ہے ۔ شیعہ وقف بورڈ کے چیرمین وسیم رضوی نے کہاکہ ’’مسئلہ ایودھیا کی یکسوئی کیلئے شیعہ وقف بورڈ کی طرف سے تجویز کا مسودہ تیار کیا گیا جو 18 نومبر کو سپریم کورٹ میں داخل کیاگیا‘‘۔ رضوی نے مسئلہ ایودھیا کی یکسوئی کیلئے شیعہ وقف بورڈ کی طرف سے تیار کردہ فارمولہ کو بہترین قرار دیا ، اور کہا کہ شیعہ وقف بورڈ جو بابری مسجد کا متولی ہے ایودھیا کی اس اراضی پر اپنی حق ملکیت سے دستبردار ہورہا ہے ۔ وسیم رضوی نے کہا کہ ’’بورڈ کا نظریہ ہے کہ ایودھیا کے بجائے لکھنو کے علاقہ حسین آباد میں ’مسجد امن ‘ تعمیر کی جائے اور اس ( مسجد امن ) کے لئے حکومت سے ایک ایکر اراضی فراہم کرنے کی درخواست کی گئی ہے ۔ متنازعہ مقام پر سنی سنٹرل وقف بورڈ کے دعویٰ کا تذکرہ کرتے ہوئے وسیم رضوی نے کہاکہ الہٰ آباد ائی کورٹ کے لکھنو بنچ کی طرف سے ستمبر 2010 ء کے فیصلہ کے ذریعہ سنی وقف بورڈ کو نہیں بلکہ مسلمانوں کو ایک تہائی اراضی دی گئی تھی ۔ رضوی نے جو یہاں آل انڈیا اکھاڑہ پریشد کے چیرمین مہنت نریندر گیری کے ساتھ پریس کانفرنس سے خطاب کررہے تھے یہ الزام بھی عائد کیا کہ اس مسئلہ پر شیعہ وقف بورڈ کے نظریات کو پرزور انداز میں کبھی بھی پیش نہیں کیا گیا کیونکہ اس مقصد کیلئے جن وکلاء کو رکھا گیا تھا وہ ’’فرضی‘‘ تھے ۔ رضوی نے دعویٰ کیا کہ ’’بورڈ کے فائیلوں پر پیروی اور کارروائی کے ضمن میں پتہ چلا کہ اس مقدمہ کی پیروی کرنے والے وکیلوں کو بورڈ کی طرف سے حتیٰ کہ وکالت نامہ بھی نہیں دیا گیا تھا‘‘۔ رضوی نے اس مسئلہ کی تحقیقات کا حکم دینے کا مطالبہ بھی کیا ۔انھوں نے کہاکہ ’’شیعہ وقف بورڈ پر ایوھیا تنازعہ میں تاخیر سے سرگرم ہونے کا الزام عائد کیا جارہا ہے حالانکہ حقیقت تو یہ ہے کہ اس کو یہ علم نہیں تھا کہ عدالت میں اس کی طرف سے وکلاء مقرر کئے گئے تھے ۔ حکومت کو اس بات کی تحقیقات کرنے کی ضرورت ہے کہ اس بورڈ کی طرف سے کس نے اُن وکلاء کو تعینات کیا تھا جنھوں نے مقدمہ کی مناسب وکالت اور پیروی نہیں کی تھی‘‘ ۔ نریندر گیری نے کہاکہ ایودھیا میں رام مندر تعمیر کیا جائے گا اور تمام فریقوں سے بات چیت کے ذریعہ اس مسئلہ کا خوشگوار حل تلاش کرلیا جائے گا ۔