ایمبولنس میں نارمل زچگی ہوسکتی ہے تو پھر دواخانہ میں کیوں نہیں؟

حیدرآباد ۔ 12 مئی (سیاست نیوز) چند دہے قبل کسی کے گھر ننھے مہمان کی آمد اور جوڑوں کے ماں باپ بن جانے پر سارے خاندان کے افراد میں خوشیوں کی لہر دوڑ جاتی تھی لیکن اب کسی کے گھر کسی بچے کی پیدائش پر ہونے والی خوشی دواخانوں کی موٹی بل، آپریشن سے ماں کو ہونے والی فوری تکلیف کے علاوہ مستقبل میں کبھی ختم نہ ہونے والے مسائل، ننھے بچے کو یرقان اور دیگر مسائل کی وجہ سے کسی دوسرے دواخانے منتقلی اور وہاں کے دیگر مشکلات کی وجہ سے بے رنگ ہورہی ہے۔ 10 میں سے 8 زچگیاں آپریشن کے ذریعہ انجام پارہی ہیں جس نے دواخانوں کے شفاف علاج پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے حالانکہ تازہ ترین مطالعہ میں یہ حقائق سامنے آئے ہیں کہ 108 ایمبولنس سرویسز میں موجود عملہ ابتدائی طرز کی ٹریننگ کے بل بوتے پر گاڑی میں ہی نارمل زچگی کرواچکے ہیں۔ 108 ایمبولنس خدمات کے 2017ء کے واقعات پر تحقیقی مطالعہ کے بعد جو اعدادوشمار منظرعام پر آئے ہیں ان کے مطابق ہنگامی حالات میں افراد کو طبی امداد اور دواخانوں میں شریک کروانے کے معاملات میں حاملہ خواتین کو دواخانوں تک پہنچانے کے واقعات سب سے زیادہ ہیں جبکہ دوسرے نمبر پر حادثات کے دوران زخمی ہونے الے افراد ہیں۔ جی وی کے ای ایم آر آئی جوکہ ریاستی حکومت کے ساتھ 108 ایمبولنس فراہم کرتی ہے، اس کے بموجب 2017ء میں ماہانہ 32,500 واقعات میں مریضوں کو دواخانہ میں شریک کروایا گیا ہے جس میں ایک تھائی یعنی 9,550 واقعات زچگی سے متعلق ہیں جبکہ حادثات کے واقعات میں 4,250 افراد کو دواخانوں میں شریک کروایا گیا ہے۔ خودکشی کے واقعات، سانپ کاٹنے کے واقعات، جانوروں کے حملوں میں زخمی ہونے والے افراد اس فہرست میں یکے بعد دیگر درج ہیں۔ ان اعدادوشمار میں ایک حیرت انگیز سچائی یہ بھی ہیکہ دیہی علاقوں میں 108 کے تربیت یافتہ عملہ ایمبولنس میں ہی نارمل زچگی کروارہا ہے جوکہ شہر کے کارپوریٹ دواخانوں کی بدعنوانیوں کو اجاگر کرنے کیلئے کافی ہے۔ ایمبولنس میں ابتدائی سہولت میں جب خواتین کی زچگیاں نارمل ہوسکتی ہیں تو پھر شہر کے عالیشان اور تمام ٹیکنالوجیز سے آراستہ دواخانوں میں زچگی نارمل کیوں نہیں ہوسکتی؟ اس سوال کا آسان جواب یہی ہیکہ دواخانے نارمل زچگی کروانا ہی نہیں چاہتے کیونکہ نارمل زچگی میں عوام کا فائدہ اور دواخانے کا نقصان ہے۔