ایل ای ڈی لائٹس سے کینسر کے خطرات میں اضافہ

بارسیلون انسٹی ٹیوٹ فار گلوبل ہیلت کی تحقیقی رپورٹ
حیدرآباد۔یکم۔مئی(سیاست نیوز)شہر کو چکا چوند کرنے والی اور تیزروشنی بکھیرنے والی ایل ای ڈی لائٹس جس کے استعمال کو نہ صرف حکومت بلکہ شہری بھی ٹیکنالوجی کا فروغ تصور کرر ہے ہیں وہ اس بات سے واقف نہیں ہیں کہ ایل ای ڈی لائٹس کینسر کے خطرات میں اضافہ کا باعث ہیں اور ان لائٹس کے استعمال سے مختلف قسم کے کینسر کے خطرات میں 1.5فیصد تک کا اضافہ ریکارڈ کیا جا رہاہے اور کہا جا رہا ہے کہ ایل ای ڈی سے نکلنے والے ’بلو ریز‘ جو شعائیں ہیں وہ انسانی جسم میں کینسر کے آثار کو پیدا کرنے میں کلیدی کردار اداکرتے ہیں۔ تحقیق کے مطابق انسانی جسم میں کینسر کے اثرات کی موجودگی کی صورت میں یہ شعائیں ان میں حرارت پیدا کرتی ہیں اور اگر جسم میں قوت مدافعت کم ہو تو ایسی صورت میں ایل ای ڈی کے ذریعہ نکلنے والی شعائیں کینسر کے جراثیم کو پیدا کرنے کی بھی صلاحیت رکھتی ہیں۔ انسان ٹیکنالوجی کے میدان میں زبردست ترقی کے ڈنکے بجا رہاہے لیکن روشنی کے معاملہ میں ایل ای ڈی کے ذریعہ یہ دعوی کیا جا نے لگا تھا کہ برقی بچت اور زیادہ روشنی کے معاملہ میں ایل ای ڈی انتہائی کارگر ثابت ہو رہی ہے۔ ایل ای ڈی لائٹس کا استعمال اب تو اسٹریٹ لائٹس کیلئے بھی کیا جانے لگا ہے جو کہ انتہائی خطرناک ثابت ہوسکتا ہے کیونکہ روشنی کے ذریعہ کینسر پھیلایاجانے لگا ہے۔محققین جو کہ ایل ای ڈی لائٹس سے نکلنے والی شعاؤوں کی تحقیق کر رہے تھے نے جو نتیجہ اخذ کیا ہے اس کے مطابق اب تک جو نارنجی لائٹس استعمال کی جاتی تھیں وہ انسانی جسم پر کوئی منفی اثر ڈالنے والی نہیں تھیں لیکن اس کے بعد سفید اور اب بلکل سفید جو کہ بل ریز کی حامل ہیں یہ لائٹس انسانی جسم میں کینسر کا سبب بن سکتی ہیں۔ بارسیلونا انسٹیٹیوٹ فار گلوبل ہیلت کی جانب سے کی گئی اس تحقیق کے دوران اس بات کا انکشاف ہوا ہے کہ ایل ای ڈی لائٹ کے استعمال سے کینسر کے خطرات میں اضافہ ہوتا ہے اور اس بات کی تصدیق کی ہے کہ یہ شعائیں انتہائی خطرناک ہیں اور 4000 افراد کا معائنہ کرنے کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا گیا ہے۔ بتایاجاتاہے کہ 20تا85سال کی عمر کے افراد کے معائنے کئے گئے جس سے یہ پتہ چلا ہے کہ اس کے اثرات ہر عمر کے لوگوں پر ہونے لگے ہیں۔ بارسیلونا انسٹیٹیوٹ فار گلوبل اور یونیورسٹی آف ایکسٹر برطانیہ کی اس مشترکہ تحقیقی رپورٹ کو ماحولیاتی صحت کی تحقیق سے متعلق جرنل میں شائع کیا جا چکا ہے اور کہا جا رہاہے کہ اس رپورٹ کی اشاعت کے بعد ایل ای ڈی کے متعلق مزید تحقیق کے امکانات پائے جاتے ہیں۔