ایغور مسلمانوں کے خلاف چین کی مہم ایک نیا ٹارگٹ ہے۔

استنبول۔ ایک قلم کار اور میگزین ایڈیٹر کے طور پر قربان میموت نے مغربی چین میں صدیوں سے رہنے والے ترکی اقلیتی گروپس اور ایغور کے اپنے لوگوں کی تاریخ کو تہذیب کے فروغ کا بیڑا اٹھایاہے۔

انہوں نے چینی انتظامیہ کی جانب سے نافذ سخت سنسر شپ کے دائرے میں رہتے ہوئے یہ کام کیاہے‘ جو مذہبی علیحدگی اور اسلامی شدت پسندی سے بہت اچھی طرح واقف اور خطہ کے قدیم مسلم لوگوں میں سے ہیں

۔یہ ایک لائن تھی جس میں میموت کامیابی کے ساتھ 26سال گذارے ‘ آخر کار 2011میں ریٹائرڈ ہونے سے قبل کمیونسٹ پارٹی کے زیر کنٹرول زنجیانگ سیولائزیشن میگزین کے ایڈیٹر ان چیف بنے۔

ان کے بیٹے بہرام سنتاش کو ویر جینیا میں مقیم ہیں نے کہاکہ ’’ میرے والد بڑے ہوشیار ہیں‘ انہیں معلوم کیا ہے سرخ لائن کیاہے‘ اگر تم اس کو پار کرتے ہوئے تو جیل میں چلے جاؤ گے۔آپ سرخ لائن کے بہت قریب سے لوگوں کو مذکورہ تہذیب کا درس دے سکتے ہیں۔

آپ کو اپنے الفاظ کے ساتھ کافی ہوشیار برتنے ہوگی‘‘۔ پچھلے سال سرخ لائن ہٹی ۔ اچانک میموت اور سینکڑوں دیگر ایغور دانشوروں کو جنھوں نے کامیابی کے ساتھ نصابی‘ ارٹس اور صحافت کی دنیا میں زندگی گذاری کو زنجیانگ صوبے سے ہٹایاگیا ایک ملین سے زیادہ مسلمانو کو تفتیشی کیمپوں میں رکھا گیا۔

اسکالرس‘ انسانی حقوق کی وکلات کرنے والے اور محروس ایغوروں کے مطابق پچھلے کچھ دہوں میں چین کے سب سے مستحکم ایغور وں کی بڑے پیمانے پر حراست کمیونسٹ پارٹی کی ایک خطرناک علامت بن گیا ہے جو کئی دہوں میں حساس سماجی انجینئرنگ ہے

۔ ایغور تہذیب کے علمبردار کے طور پر اپنی تاریخ کے چانسلر اور آرٹ کے تشکیل کردہ ‘ مذکورہ دانشواروں نے مرکزی ایشیاء کی تعمیر کی ہے‘ یرک بولنے والے سماج کے محافظ جس کی طاقتور یادیں ہیں جوانتظامی قانون کے دائروں میں محدود کردیا گیا ہے۔

کمیونسٹ پارٹی کے اپنے مبصرین کی شکایت میں کہنا ہے کہ ان کی حراست پر مذکورہ پارٹی کا پہل کا مقصد ایغور کی شناخت کو مذکورہ گروپ کو ان لوگوں سے منسلک کرنا ہے جو برے پیمانے پر سکیولر ‘ چینی کلچرل میں منظم ہیں۔ ان حراستوں کو چینی حکومت نے ملازمت کی ٹریننگ قراردیا ہے تاکہ ملک کے غریب لوگوں وک ملازمتوں کے موقع فراہم کئے جاسکیں۔

مگر ایک سوسے زائد ایغور وں کی فہرست میں ان کے اسکالرس کو غیر ملکی قراردیا گیا ہے جس میں ممتاز شعرا اور مصنف ‘ یونیورسٹی کے سربراہاں اور پروفیسر س شامل ہیں ‘ جنہیں ایغوروں کی تاریخ سے لے ہر چیز پر عبور حاصل ہے۔ہیومن رائٹس واچ کے ایک ہانگ کانگ نژاد محقق مایا وانگ نے کہاکہ ’’ یہ حقیقت ہے کہ اعلی تعلیمی یافتہ ماہر تعلیمات ‘ سائنس داں اور سافٹ ویر انجینئر کی تحویل انتظامیہ کے ساتھ جوابی بحث کے لئے ایک بہترین موقع ہے‘‘۔

زنجاینگ میں مقیم اپنے گھر والوں کی زندگی کی فکر میں اپنا شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط استنبول میں رہنے والے ایک ایغور پروفیسر نے کہاکہ چینی حکومت سے واقف اعلی سطحی ایغور اسکالرس کی برطرفی اور ملک کے تعلیمی و قانونی نظام میں تبدیلی کا مقصد ہے کہ ناصرف مذکورہ گروپ کی مذہبی شناخت کو مٹایاجائے بلکہ اس طرح کی روایتوں کی حفاظت کے لئے کھڑے ہونے کے قابل بھی چھوڑ ا نہیں جارہا ہے۔ماہر اقتصادیات ایغور الہام ٹوہاٹی جیسے دانشوار کی طرح کئی اسکالرس ہیں جن کے ساتھ قید میں بدسلوکی کی جاتی ہے۔

توہاٹی کو چین میں ایغور مسلمانوں کے خلاف ہونے والے امتیازی سلوک کو تنقیدکا نشانہ بنانے کے علیحدگی پسندی کے کیس میں قصور وار پائی جانے پر عمر قید کی سزاء سنائی گئی ہے۔سال2017میں کئی اور گرفتار کیاگیا۔ ان میں سے زیادہ تر ایغور ی تہذیب کو بچانے کاکام کررہے تھے۔

راہلی داؤت ایغور ماہر تعلیم کے نام سے مشہور جو زنجیانگ یونیورسٹی میں انتھرو پالوجسٹ تھے اور اسلامی مزاروں‘ روایتی گانوں اورفولک پڑھاتے تھے ۔ انہوں 2017ڈسمبر کو تحویل میں لیاگیاتھا جس کے بعد ایک مرتبہ بھی ان کے متعلق کچھ سنائی نہیں دیاگیا۔

اس طرح کی کاروائی سے قبل ایغور دانشواروں کی اہم شخصیات نے گیارہ ملین کی آبادی پر مشتمل جن میں غریب کسانوں کی اکثریت پائی جاتی ہے ایغوروں اور سیاسی طاقت رکھنے واے ہان چینی جو کافی دولت مند میں بھی کے درمیان میں ایک تعلق قائم کرنے کی پیشکش کی تھی . ان اسکالرس نے نہایت چالاکی کے ساتھ کام کرنے کی کوشش کی تاکہ اس بات کو ثابت کرسکیں کہ کئی گروپس کی شکایت ہے کہ مذہبی سرگرمیوں پر ہولہناک امتناعہ او رامتیازی سلوک تیزی کے ساتھ پھیل رہا ہے۔

کوپن ہیگن یونیورسٹی کے محقق رونی اسٹین برگ نے کہاکہ ان دانشواروں نے ایک ایسے تبدیلی شدہ راہ کا تعین کیاجس میں ایغور شدت پسندی اور تباہی پہنچانے والے ائیڈیاز میں تبدیل ہوئے بعیر اپنی مذہبی اور تہذیبی آزادی پر کام کرسکیں۔اسٹین برگ او ردیگر محققین کے مطابق اسکالرس کے اس اقدام سے کافی ایغوری نوجوان متاثر ہوئے تھے