ایسا بھی ہوتا ہے (ایک ناقابل فراموش سچا واقعہ)

محمد نصراللہ خان
ابتدائی تعلیم کے بعد ہم نے ساتویں جماعت گورنمنٹ اپر پرائمری اسکول (اردو میڈیم) شاہ گنج حیدرآباد سے کامیاب کیا ۔ تعلیم کے دوران سنا کہ یہ امتحان ، بورڈ امتحان ہوا کرتا ہے ۔ بورڈ کا مطلب کافی دن ہماری سمجھ میں نہ آیا ۔ 1975 ء کی بات ہے کہ ساتویں جماعت کے سالانہ امتحان میں ہمارے ہاتھ میں سوالات کا پرچہ نہیں دیا جاتا بلکہ استاد امتحانی وقت کے کچھ دیر قبل بورڈ پر سارے سوالات لکھ دیتے ۔ اس کے بعد جو استاذ سال بھر بڑی محنت کے ساتھ اسباق پڑھاتے رہے وہی امتحان میں سیاہ بورڈ پر جوابات بھی لکھنے لگے ۔ جس کو ہم اور ہمارے ساتھیوں نے جوابی بیاض پر جلدی جلدی لکھنا شرع کیا ۔ اس وقت ہمیں لگا کہ یہ امتحان واقعی ’’بورڈ امتحان‘‘ ہے ۔ ان دنوں حکومت نے اسے ’’کامن امتحان‘‘ کے زمرے میں لے لیا ہے ۔ آج بھی کئی طالب علم اس بات سے واقف نہیں ہیں کہ ’’کامن امتحان‘‘ اور ’’بورڈ امتحان‘‘ کا مطلب کیا ہے ۔ دراصل حکومت اس امتحان کی تیاری ، پرچوں کی تیاری ، جانچ اور دیگر امور کیلئے ماہر تعلیم کا ایک پیانل تیار کرتی ہے جو اس امتحان کی دیکھ بھال کے ساتھ مختلف مشورے بھی دیتا ہے ، نتیجہ تک یہ سرگرم رہتے ہوئے بورڈ کہلاتا ہے‘‘ ۔

ساتویں جماعت میں کامیابی کے بعد گورنمنٹ بوائز ہائی اسکول چادر گھاٹ (عابڈز) میں داخلہ لیا ۔ یہ وہ دور تھا جب ملک میں تیزی سے سیاسی اتھل پتھل ہورہی تھی ، ایمرجنسی کے نفاذ کے بادل آسمان ہند کے افق پر منڈلارہے تھے ، جہاں ہم نے ہائی اسکول کے ابتدائی زینے طے کئے ۔ اتفاقاً ہمارے والد بزرگوار مولانا ابوالنصر عابر جو جماعت اسلامی ہند کے قائدین میں شمار کئے جاتے ہیں ، بنیادی طور پر سیول انجینئر محکمہ پی ڈبلیو ڈی میں برسرکار تھے ، تبادلہ ورنگل ہوا ، جس کے باعث ہمیں حیدرآباد سے ورنگل منتقل ہونا پڑا ۔ وہاں ہم نے انتصار گنج گورنمنٹ ہائی اسکول (مٹھواڑہ) میں داخلہ لیا ۔ ہمیں اچھی طرح یاد ہے کہ ان دنوں ریاست میں کانگریس کا اقتدار تھا اور مرکز میں حکومت کی باگ ڈور جنتا پارٹی اپنے ہاتھ میں لے رکھی تھی ۔ طالب علموں کو سیاست سے کم کھیل سے زیادہ دلچسپی ہوا کرتی ہے ۔ چنانچہ ہم کھیل کود کے ساتھ پڑھائی میں دلچسپی لینے لگے ، کیونکہ ان دنوں دادا دادی ، والدین اس ضرب المثل کو بارہا دہرایا کرتے کہ ’’پڑھوگے لکھوگے تو بنوگے نواب ۔ کھیلو گے کودوگے تو ہوگے خراب‘‘ ۔
یہ اور بات ہے کہ موجودہ زمانہ میں کھیل کود سے دلچسپی لینے اور مہارت رکھنے والے ٹھاٹ باٹ کی زندگی گذار رہے ہیں اور ان کا ہی مستقبل درخشاں دکھائی دے رہا ہے ۔ عام طور پر ایسا ہوتا رہا کہ آٹھویں اور نویں جماعت کے طلباء کا امتحانی پرچے اسکول انتظامیہ اپنے طور پر تیار کرلیا کرتے ، لیکن جب ہم ان جماعتوں میں پہونچے تو پرچے ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر (ڈی ای او) کے ہاں سے آنے لگے ، ہمیں اس سے ایک طرف بورڈ امتحان لکھنے کا تجربہ ہاتھ آیا ۔ ان دنوں والدین کی جانب سے تعلیم کے معاملہ میں بڑی سختی برتی جاتی ، کسی بھی تقریب میں جانے پر پابندی ہوا کرتی ، والد کی ہدایت کے باوجود پڑھائی میں یکسوئی ہو ، ہم دعوتوں میں ضرور شریک ہوتے ۔ یہاں تک ہر دوسرے روز معمولی تقریب میں جانا پڑتا ، کسی نہ کسی بہانے مہمانوں کے آنے کا سلسلہ جاری رہتا ، ان دنوں مہمان نوازی بڑی فراخدلی سے کی جاتی ۔ یہ ہمارے صبر کا امتحان تھا ۔ ہمارے پیش نظر ایک ہی مقصد تھا کہ ایس ایس سی کا یہ بورڈ امتحان اعلی نمبرات سے کامیاب کرلیں ۔ کیونکہ اس امتحان کے بعد طلباء اپنے مستقبل کی سمت کا فیصلہ کرنے کے اہل ہوجاتے ہیں ۔ بہرحال ایس ایس سی کا سالانہ امتحان دے دیاگیا اور نتیجہ کا بے صبری سے انتظار ہونے لگا ۔ تمام پرچے اچھے لکھے گئے تھے ، کامیابی کی نوید سن کر پھول پہننے اورمٹھائیاںکھانے کا ارمان بھی تھا ۔ نتیجہ کا دن سر پر آگیا اور رات بھر نیند نہیں آئی ، صبح اٹھتے ہی فجر کے بعد نتیجہ اخبار میں دیکھا تو ہماری حیرت کی انتہا نہ رہی کہ کامیاب طلباء کی فہرست میں ہمارا نمبر موجودہ نہ تھا ، اخبار میں شائع شدہ نمبرات کو بار بار دیکھا ، لیکن ہمیں اپنا ہی نمبر نظر نہیں آیا ۔ بالآخر 1978 سپلیمنٹری امتحان کی فیس باندھی گئی ، امتحان کی فیس باندھنے کے بعد ہمیں کامیاب ہونے اور نہ ہونے کے ملے جلے خواب نظر آتے ، جس سے ہم چونک اٹھتے ۔ رب کا فضل یہ ہوا کہ کامیابی حاصل کرلی ، لیکن نشانات اس طرح کے حاصل نہیں ہوئے جو ہمارے مستقبل کو درخشاں بناسکے ۔ مسابقت کے دور میں والدین کی تمنا تھی کہ ہم اعلی نشانات سے کامیابی حاصل کریں ،

لیکن اس معاملہ میں قسمت ہمیں دغا دے گئی ، حوصلہ برقرار تھا ، والدین کے مشورہ پر نشانات بڑھانے کیلئے جسے عرف عام میں ایمپرومنٹ کہا جاتا ہے ، امتحان دوبارہ لکھنے کافیصلہ کیا گیا ۔ پہلے سے زیادہ محنت اور سنہرے مستقبل کے خواب دیکھنے لگے شاید انہی خوابوں کا اثر تھا کہ امتحان کے دوران پرچہ سوالات کے افشا ہونے کا سلسلہ شروع ہوچکا ۔ ہر پرچہ ایک دن قبل ہی کہیں نہ کہیں کیس نہ کسی طور پر مل جاتا ۔ حالت یہ ہوگئی کہ آنے والے پرچے بس کے پیچھے چسپاں کردئے گئے ، اخبارات افشاء شدہ پرچوں کو شائع کررہے تھے جس کے باعث ہمیں لگ رہا تھا کہ ہماری پانچوں انگلیاں گھی میں ہیں ، پانچوں انگلیاں جب گھی میں ہوتی ہیں تو سر کڑھائی میں چلا جاتا ہے ۔ یہی معاملہ ہمارے ساتھ ہوا ، یہ افواہیں گشت کررہی تھیں کہ افشاء شدہ پرچوں کے طلباء کو دوبارہ امتحان دینا پڑے ، لیکن پتہ نہیں کہ کانگریس کا اقتدار، سیاسی مصلحت کی کارفرمائی اور طلباء کی خوش نصیبی کہ دوبارہ امتحان کے انعقاد کی نوبت نہ آئی ۔ ہمیں یقین تھا کہ ہمارا نمبر درجہ اول سے کامیاب امیدواروں کی فہرست میں نظر آئے گا کیونکہ ہم نے سینہ ٹھونک کر قلم میں کئی بار سیاہی بھر کر ، پتی کے ٹوٹ جانے کے ڈر سے دو دو قلموں کو اپنے ساتھ رکھ لئے ۔ کیونکہ ہم جانتے تھے کہ مساک پن سے نکلی ہوئی قرطاس پر سیاہی ہمارے لبوں کی سرخی بن جائے اور ہم مسکرا مسکراکر سب کو اپنی کامیابی کا مژدہ سناسکیں ۔ اس زمانہ میں نتائج اخبار میں شائع ہوتے تھے ، خصوصی ضمیمہ نکال کر طلباء کو فروخت کیا جاتا ۔ ہم نے بھی اپنے نمبر کی تلاشی کیلئے ایک ضمیمہ خرید لیا ، لیکن اس میں ہمارا نمبر نظر نہیں آیا ۔ اس وقت ہمیں محسوس ہوا کہ ہال ٹکٹ نمبر کہیں ہم سے آنکھ مچولی تو نہیں کھیل رہا ہے ۔ ہوسکتا ہے ضمیمہ نے ہمارا نمبر ضم کرلیا ہو ۔ اس خیال کے آتے ہی ہم یہ سوچنے لگے کہ دوسرے روزناموں میں بھی نتیجہ چھپتا ہوگا ۔ یہ روزنامے ہمیں شاد کریں گے ۔ لیکن حیرت تو اس بات پر ہوئی کہ تمام روزناموں نے ہمارے نمبر کے تعلق سے منہ موڑ لیا ۔ روزنامہ منصف ان دنوں بیس پیسے میں نکلا کرتا تھا بالآخر ہم نے اس کی بھی خریداری کی اور نمبر اس میں بھی نظر نہیں آیا ۔ یہ سوچنے پر مجبور ہوگئے کہ واقعی ہم ناکام ہوچکے ہیں ۔ اس ناکامی پر ممکن تھا کہ ہم غش کھا کر گرجاتے ، لیکن ایسا نہیں ہوا کیونکہ ہم ایک باہمت نوجوان تھے ۔ ہمارے دل میں یہ بات تھی کہ ’’گرتے ہیں شہ سوار ہی میدان جنگ میں‘‘ ۔ اس لئے حوصلہ نہیں ہارنا چاہئے ’’ہمت مرداں مدد خدا‘‘ کے مصداق آگے بڑھتے رہنا چاہئے ۔ چنانچہ ہم نے اپنے آپ کو ناکام طالب علم سمجھ کر پھر دوبارہ امتحان لکھنے کا تہیہ کرلیا ۔ اور ناکام نشانات کا میمو لینے اسکول پہنچے ،

لیکن ہمارا میمو وہاں موجود نہیں تھا ۔ انچارج کلرک نے مشورہ دیا کہ بورڈ آف سکنڈری جا کر میمو حاصل کرلیں اور ساتھ میں دوبارہ امتحان کی فیس بھی جمع کرادیں ۔ ہم نے کلرک کی اس بات پر عمل کرتے ہوئے بورڈ آف سکنڈری (چیاپل روڈ) پہونچے اور ناکام نشانات کا میمو حوالے کرنے کی خواہش کا اظہار کیا وہاں موجود ذمہ دار شخص ہمارا رول نمبر کافی دیر تک میموز میں تلاش کرتا رہا ، اس پر ہم سمجھے کہ وہ کسی آس کے بنا اتنی دیر لگارہا ہوگا جس پر ہم نے والد پر اپنی نظریں دوڑائیں ۔ ان کے نورانی چہرے سے جھلکتی چمک کی بنا پر کلرک کی زبان بند تھی ، وہ کچھ مطالبہ کرنے سے قاصر تھا ۔ اس کے بعد اس نے نتیجہ کے ریکارڈ کی تلاشی لی ، جہاں ہمارا نام ، نمبر اور اس کی تفصیلی ملی ، اس نے کہا ’’نتیجہ کی فہرست میں نمبر شائع نہ ہوسکا ، تم پاس ہوچکے ہو‘‘ ۔ اس خوشخبری کو سن کر ہم پھولے نہ سمائے ، آنکھیں نم ہوگئیں ۔ اچھا ہوا کہ قریب میں کوئی پھول کی دکان نہ تھی ورنہ ہم دوکان میں موجود سارے پھولوں کا ہار بنا کر اپنے گلے اور کلرک کے گلے میں ڈال دیتے ۔ دفتر سے کامیابی کا ڈنکا بجاتے ہوئے نکل پڑے ، ہمارے اداس دل میں کامیابی کی خبر سے ایک نئی روشنی کی کرن پھوٹ پڑی۔ ایک نیا عزم و حوصلہ ہمارا منتظر تھا ۔ تقدیر میں اگر کامیابی لکھی ہوگی تو اسے کوئی مٹا نہیں سکتا ۔ اس لئے ناکام طلباء جو کبھی کبھار پست ہمتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے آپ کو سزا کا حقدار بنالیتے ہیں اور قیمتی زندگی کو ضائع کرنے کی کوشش کرتے ہیں ، ان سے ہم یہی کہیں گے کہ ہر طرح سے مطمئن ہونے کے بعد اپنے نتیجہ پر یقین کریں ، ہوسکتا ہے کہ آپ کامیاب ہوگئے ہوں لیکن وقت کی گردش آپ کو ناکام قرار دے رہی ہو اگر جلد بازی میں کوئی غلط قدم اٹھائیں گے تو اس کا انجام برا ہوگا ۔ اس لئے ان کا پامردی کے ساتھ مقابلہ کریں ۔ اگر ناکام بھی ہوجائیں تو اگلا مرحلہ آپ کو کامیابی کی نوید سنائے گا اور ایک بہتر مستقبل آپ کی امید کے کاشانہ پر دستک دے گا ۔ ہم اپنے اس واقعہ کو آج تک فراموش نہیں کرسکے ۔