ایران نیوکلیئر معاہدہ

اب کی بار دیکھو وہ کیا فریب دیتا ہے
وہ پھر سے مل رہا ہے بڑی سادگی کے ساتھ
ایران نیوکلیئر معاہدہ
ایران کے متنازعہ نیوکلئیر پروگرام پر ایران اور عالمی طاقتوں کے مابین بالآخر ایک معاہدہ طئے پا گیا ہے ۔ اس سلسلہ میں ایران اور امریکہ و اس کے حواری ممالک کے مابین گذشتہ کئی دنوں سے مذاکرات کا عمل جاری تھا ۔ بات چیت کے دوران کئی موقعوں پر یہ تاثر پیدا کرنے کی کوشش کی گئی تھی کہ ایران اور امریکہ کے مابین مذاکرات کی کامیابی کے امکانات بہت ہی کم ہیں اور دونوںفریقین کے مابین کئی اہم امور اور مسائل پر اختلافات شدید ہیں جنہیں فی الحال بات چیت کے ذریعہ فوری حل کرنا بظاہر ممکن نہیں ہے ۔ اس تاثر کے بعد اچانک ہی فریقین کے مابین ایک معاہدہ پر دستخط ہوگئے ہیں جس کے تحت جہاں ایران اپنے نیوکلئیر پروگرام پر پیشرفت کو ایک حد تک روکنے کیلئے رضامند ہوگیا ہے وہیں دوسری طرف امریکہ اور اس کے حواری ممالک نے اس بات سے اتفاق کیا ہے کہ وہ تحدیدات کے امر میں ایران کیلئے 7 بلین ڈالرس تک کی راحت فراہم کرینگے ۔ یہ راحت حالانکہ پہلے سے عائد تحدیدات میں نرمی کی شکل میں نہیں ہونگی تاہم آئندہ چھ ماہ تک ایران پر مزید تحدیدات عائد کرنے سے گریز کیا جاتا رہے گا ۔ اس کیلئے یہ شرط عائد کی گئی ہے کہ ایران معاہدہ میں جو وعدے کرچکا ہے ان پر پوری دیانتدار ی کے ساتھ عمل کرتا رہے اور بین الاقوامی جوہری توانائی ادارہ کے ساتھ عالمی طاقتوں کی شرائط کے مطابق تعاون کرے ۔ بین الاقوامی جوہری توانائی ادارہ کے معائنہ کاروں کو اپنے نیوکلئیر ری ایکٹرس کا معائنہ اور مشاہدہ کرنے کا وسیع موقع فراہم کرے ۔ خود امریکہ اور ایران کی جانب سے اس معاہدہ کا خیر مقدم کیا گیا ہے ۔ امریکی صدر بارک اوباما اور سکریٹری آف اسٹیٹ جان کیری نے اس معاہدہ کا خیر مقدم کرتے ہوئے اسے تعطل ختم کرنے کی سمت پیشرفت اور اسرائیل کے تحفظ کا ضامن قرار دیا ہے تو دوسری جانب ایران کے روحانی رہنما آیت اللہ علی خامنہ ای اور صدر حسن روحانی نے بھی اس معاہدہ کا خیر مقدم کرتے ہوئے اسے علاقہ میں امن اور سکیوریٹی صورتحال کو بہتر بنانے میں معاون قرار دیا ہے ۔ ایرانی رہنما آیت اللہ علی خامنہ ای نے تو ایرانی مصالحت کاروں کو اس ’’ کامیابی ‘‘ پر مبارکباد دی ہے اور کہا کہ یہ معاہدہ ان کی کوششوں کا نتجہ ہے جس کیلئے وہ قابل مبارکباد ہیں۔ حسن روحانی کا کہنا ہے کہ اس معاہدہ سے ایران کے خلاف جاری تحدیدات کے عمل کو نرم کرنے میں مددملے گی او ر تحدیدات کا عمل ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہونا شروع ہوگیا ہے ۔ دونوں ہی فریقین نے اس معاہدہ کا خیر مقدم کیا ہے اور اپنے اپنے طور پر رد عمل کا اظہار کیا ہے تاہم ایک پہلو دلچسپ ہے کہ اس معاہدہ میں دونوں ہی فریقین اپنی اپنی کامیابی کا ادعا کر رہے ہیں۔ امریکہ کا کہنا ہے کہ اس معاہدہ کے نتیجہ میں علاقہ میں سکیوریٹی صورتحال بہتر ہوگی اور ایران کے نیوکلئیر پروگرام میں مزید کوئی پیشرفت نہیں ہوگی ۔ نیوکلئیر پروگرام جہاں ہے وہیں رہے گا اور بتدریج اس کے حلقہ اثر کو کم سے کم کیا جاتا رہے گا ۔ دوسری طرف ایران کے صدر حسن روحانی کا کہنا ہے کہ معاہدہ کے نتیجہ میں اپنی سرزمین پر یورانیم افزودگی کے تعلق سے ایران کے حق کو تسلیم کرلیا گیا ہے ۔ امریکہ اور اس کے حواری ممالک کا کہنا ہے کہ معاہدہ کی رو سے ایران پانچ فیصد سے زیادہ شرح تک یورانیم افزودگی کا عمل روک دے گا اور صرف اس حد تک سرگرمیاں جاری رہیں گی جہاں تک اس کی توانائی ضروریات کی تکمیل ہوسکے ۔ ایران کا کہنا ہے کہ یورانیم افزودگی کا عمل اس معاہدہ کے تعلق سے اس معاہدہ میں خط فاصل ہے ۔ انہوں نے وہ حد بیان نہیں کی ہے جہاں تک ایران کو افزودگی کا اختیار دیا گیا ہے ۔ فریقین کے بیانات اپنے اپنے موقف کے تعلق سے ہیں ایسے میں یہ اندیشے بے بنیاد نہیں ہوسکتے کہ ان میں آئندہ وقتوں میں اس تعلق سے دوبارہ اختلافات پیدا ہونگے ۔ یہ بات ضرور کہی جاسکتی ہے کہ فریقین نے اس تنازعہ میں اپنے لئے کچھ نہ کچھ وقت حاصل کرنے کا راستہ تلاش کرلیا ہے اور اب اس وقت میں وہ آئندہ کی اپنی حکمت عملی کو قطعیت دیتے ہوئے دنیا کے سامنے پیش ہونگے ۔ فریقین کے بیانات اور رد عمل کو دیکھنے کے بعد روس کا یہ بیان درست ثابت ہوتا ہے جس میں اس نے کہا ہے کہ یہ معاہدہ ہر فریق کی کامیابی ہے اور اس میں کسی کو شکست نہیں ہوئی ہے ۔ ایران کی اعلی قیادت نے حالانکہ اس معاہدہ کا خیر مقدم کیا ہے تاہم اس کیلئے ضروری ہے کہ وہ امریکہ اور اسکے حواری ممالک اور خاص طور پر اسرائیل کے عزائم کے تعلق سے چوکس رہے ۔ معاہدہ کی رو سے جو وقت حاصل کیا گیا ہے اس میں کسی ایسی تبدیلی کی اجازت نہ دی جائے جو ایران یا پھر سارے علاقہ کے مفاد کے مغائر ہو ۔ اگر یہ معاہدہ واقعی تنازعہ کو حل کرنے اور ایران پر تحدیدات کو ختم کرنے میں معاون ثابت ہوسکتا ہے تو صیہونی ملک اسرائیل اس معاہدہ کو متاثر کرنے کی اپنی جانب سے ہر ممکن کوشش کریگا ۔ یہ کوشش ایسی ہوگی جس کو ناکام بنانا ہر ایک کے مفاد میں ہوگا ۔ دوسری جانب یہ بھی ذہن نشین رکھنا ہوگا کہ امریکہ کا ہر عمل اسرائیل کے تحفظ اور اس کی سلامتی کے مفاد میں ہوگا اور وہ ایران یا علاقہ کی سلامتی کو ترجیح نہیں دے گا ۔ اس صورتحال میںایران کو مزید چوکسی اختیار کرنے کی ضرورت ہوگی ۔ دوسری جانب امریکہ کو اب اپنی سنجیدگی کا ثبوت پیش کرنے کیلئے ایران پر عائد معاشی تحدیدات کے عمل میں نرمی پیدا کرنی ہوگی تاکہ معاہدہ کو حقیقی معنوں میں موثر اور دیرپا بنایا جاسکے۔