ایران : صدر حسن روحانی نے وزیر خارجہ جواد ظریف کا استعفیٰ رد کردیا ۔

العربیہ ڈاٹ نیٹ نے ایران کی سرکاری خبررساں ایجنسی ایرنا کے حوالہ سے خبر شائع کی ہے کہ صدر حسن روحانی نے ایرانی وزیر خارجہ کا استعفی نامنظور کر دیا ہے۔

صدر حسن روحانی نے وزیر خارجہ کے نام ایک خط میں لکھا ہے کہ ’’سپریم لیڈر آپ کو امریکا کے دباؤ کے آگے مزاحمت میں ایک قابل اعتماد، بہادر اور مذہبی شخصیت قرار دیتے ہیں۔ میں آپ کےاستعفے کی منظوری کو قومی مفاد کے منافی گردانتا ہوں، اس لیے اس کو مسترد کرتا ہوں۔‘‘

سپاہِ پاسداران انقلاب ایران کی القدس فورس کے کمانڈر میجر جنرل قاسم سلیمانی نے بھی وزیر خارجہ جواد ظریف پر اپنے اعتماد کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ وہ ایران کی خارجہ پالیسی کے انچارج تھے اور انہیں سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کی حمایت حاصل ہے۔

قبل ازیں جواد ظریف نے انسٹا گرام پر ایک پوسٹ میں ایرانی قوم کا اپنی حمایت کرنے پر شکریہ ادا کیا ہے اور کہا ہے کہ ’’ایک عام خادم کی حیثیت سے میری کوئی تشویش نہیں رہی ہے بلکہ میں نے خارجہ پالیسی اور وزارتِ خارجہ کی حیثیت کو بلند کرنے میں اپنا کردار ادا کیا ہے‘‘۔

صدر حسن روحانی کے مذکورہ اعلان کے بعد ایران کی نیم سرکاری خبررساں ایجنسی ایسنا نے اطلاع دی ہے کہ جواد ظریف نے تہران میں آرمینیا کے وزیر اعظم کے اعزاز میں استقبالیہ تقریب میں شرکت کی ہے۔

ایرانی وزیر خارجہ نے اپنے استعفے کی کوئی وجہ بیان نہیں کی تھی اور صرف یہ لکھا تھا :’’ میں گذشتہ برسوں کے دوران میں وزیر خارجہ کی حیثیت سے خود سے ہونے والی لغزشیوں اور کمیوں ،کوتاہیوں پر معذرت خواہ ہوں۔میں ایرانی قوم اور حکام کا شکرگزار ہوں‘‘۔

جواد ظریف نے جولائی 2015ء میں ایران اور چھے بڑی طاقتوں کے درمیان طے شدہ جوہری سمجھوتے کو حتمی شکل دینے میں اہم کردار ادا کیا تھا لیکن گذشتہ سال مئی میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اس سمجھوتے سے انخلا کے بعد سے انھیں ملک کی مغرب مخالف سخت گیر مذہبی اشرافیہ کے تندوتیز حملوں کا سامنا تھا ۔

واضح رہے کہ امریکا نے گذشتہ سال نومبر میں ایران کے خلاف دوبارہ سخت اقتصادی پابندیاں عاید کردی تھیں جبکہ اس سمجھوتے میں شامل تین یورپی ممالک فرانس ، برطانیہ اور جرمنی امریکا کے جوہری سمجھوتے سے انخلا کے بعد سے اس کو بچانے کے لیے کوشاں ہیں اور وہ ایران میں کاروبار کرنے والی یورپی کمپنیوں کو بھی امریکی پابندیوں کے اثرات سے بچانا چاہتے ہیں۔

جواد ظریف نے مغرب کے ساتھ یہ جوہری سمجھوتا طے پانے کے کوئی ڈیڑھ ایک سال کے بعد ایران کی قومی سلامتی کمیٹی میں بیان دیتے ہوئے یہ بھی اعتراف کیا تھا کہ انھوں نے مغرب کے ساتھ جوہری مذاکرات کے دوران میں فیصلے کی غلطی کی تھی اور یہ ایک بڑی غلطی تھی۔