اگرہ کی لڑکی کا قتل۔’ کسی کو اس سے حسد تھا‘ اسکول بیاگ اور اس کی کتابیں بھی کسی نے جلا دیں‘

اس واقعہ سے گاؤں میں خوف کا ماحول۔ لڑکیوں نے اسکول جانا بند کردیا۔ ’’کم سے کم چالیس لڑکیاں اسی اسکول کو جاتی تھیں ‘ بطور لڑکی وہ تمام اب گھر کے باہر قدم رکھنے میں خوفزدہ ہیں‘‘

اگرہ۔گھر کے ایک کونے میں کتابوں کا ڈھیر لگا ہے ۔ مگر وہ کتابیں اب اس پندرہ سالہ دلت طالب علم سے منسوب نہیں ہیں جس کو ایک ہفتہ قبل دو موٹر سیکل سوار لوگوں نے اگرہ میں اس کے گھر کے قریب زندہ جلادیاتھا۔ماں نے کہاکہ ’’ اس روز وہ اسکول سے گھر لوٹی تھی۔

ان لوگوں نے اس کا بیاگ او رکتابیں بھی جلا دیں تھی۔ یہ کتابیں اس کی بہن کی ہیں‘‘۔ دہلی کے صفدر جنگ اسپتال میں پانچ روز لڑکی کی موت ہوگئی‘ اگرپولیس نے پیر کے روز کہاکہ قتل کے معاملے میں دو لوگو ں کی گرفتاری عمل میں ائیہے۔

پولیس کا دعوی ہے کہ متوفی لڑکی کا چچا زاد بھائی قتل کا ’’ماسٹر مائنڈ‘‘ ہے جس نے بعد میں خودکشی کرلی۔دولوگوں کی گرفتاری عمل میں دونوں ہی کارپینٹر ہیں‘ جنھوں نے مبینہ طور پر چچازاد بھائی کی لڑکی کو مارنے میں مدد کی جس کا قتل 18ڈسمبر کے روز 1:30اس وقت کیاگیا جب وہ سائیکل پر گھر واپس لوٹ رہی تھی۔دسویں جماعت کی طالب علم کی 20ڈسمبر کے روز ہوئی موت کے کچھ گھنٹوں بعد اس کے چچازاد بھائی نے بھی اسی گاؤں کے دوکمروں والے گھر میں زہر پے کر اپنی جان دیدی۔

پولیس کا کہنا ہے کہ گرفتار کئے گئے دو لوگ متوفی کے چچازاد بھائی کے رشتہ دار ہیں۔ ایس ایس پی اگرہ امیت پٹانائک نے کہاکہ ’’ اس کا چچازاد بھائی اسے پسند کرتا تھا ‘ مگر لڑکی نے اس کی پیشکش کو مسترد کردیاتھا۔

اس نے سبق سیکھانے کا فیصلہ کیا اور اپنی رشتہ داروں کی مدد سے اس کا قتل کردیا۔ وہ ایک منصوبہ بند قتل تھا۔ گرفتار کئے گئے دولوگوں نے اس بات کو قبول بھی کیاہے‘‘۔

پولیس کے مطابق قاتل بھائی لڑکی پر پٹرول چھڑکر آگ لگانے کے دوران ہیلمٹ پہناہوا تھا اور اس کے ہاتھوں میں دستانے بھی تھے۔گرفتار کئے گئے دونوں میں ایک موقع پر اس کے ساتھ موجود تھا جبکہ دوسراموٹر سیکل پر گشت کرتے ہوئے راستے پر نظر رکھا ہوا تھا۔

مذکورہ چچازاد بھائی نے ان دونوں کو پندرہ ہزار روپئے دینے کا وعدہ کیاتھا۔پولیس بیان میں کہاگیا ہے کہ ’’ متوفی کو چچازاد بھائی کی جانب سے لکھا ہوا خط‘ واٹس ایپ چیاٹس‘ اورمتوفی لڑکی کے موقع واردات کی اس کے فون میں تصویریں ‘‘ معاملے کو حل کرنے میں مدد گار ثابت ہوئی ہیں۔

متوفی لڑکی کے گاؤں میں اس نے ماں نے کہاکہ ’’ میں یقین سے نہیں کہہ سکتی ہے کہ کیوں اس کا قتل کیاگیا ہے۔ ہوسکتا ہے اس سے کسی کو حسد تھا۔ ہم اپنے تمام بچوں کو تعلیم دلارہے ہیں‘ کئی لوگوں کو یہ بات اچھی نہیں لگ رہی ہے‘‘۔

متوفی لڑکی پانچ بچوں میں دوسرے نمبری کی تھی اور گھر والے گاؤں کے جاتو حصہ میں رہتے تھے۔

دو ہزار کی آبادی پر مشتمل گاؤں میں دو سو دلت ہیں اور اکثریت یں جات طبقے کے لوگ رہتے ہیں۔گھر میں لگے متوفی لڑکی کی تصویروں میں مختلف انداز میں لے گئے تصویریں موجود ہیں ۔

متوفی کی بڑی بہن نے کہاکہ ’’ سرکاری بولتی ہے بیٹی بچاؤ بیٹی پڑھاؤ‘ مگر ہمارے یہاں بیٹیاں ہی غیر محفوط ہیں‘‘۔ متوفی لڑکی کے گھر کے کچھ دور چچازاد بھائی مبینہ قاتل کاگھر ہے۔اس کی ماں نے کہاکہ’’ سارے گاؤں سے آپ پوچھ سکتے ہیں۔

وہ ایک اچھا لڑکاتھا۔ اس نے اپنا بی ایڈ مکمل کیا اور پارٹ ٹائم ملازمت کررہاتھا۔ پولیس نے دو روز تک اس کو اپنی تحویل میں رکھا۔ جب وہ20ڈسمبر کے روز گھر واپس آیا تو اس نے مجھے بتایا کہ پولس نے اس کوپیٹ پر لاٹھیوں سے پیٹا ‘ وہ اس گھناؤنے جرم کا مجھے ملزم بنانا چاہتے ہیں‘ اس نے شرما کے مارے خودکشی کو ترجیح دی‘‘۔

تین بھائی میں یہ دوسرا نمبر کا تھا۔متوفی کے22سالہ بھائی نے کہاکہ ’’ میرا بڑا بھائی کچھ دن قبل ٹرین حادثے میں ہلاک ہوگیا۔ اب میں صرف اکیلا بچا ہوں۔ میرے والد یومیہ اجرت پر کام کرتے ہیں۔ اب ہم شرمندگی کی زندگی گذار رہے ہیں۔

ہمارے پاس خود کو دوبارہ کھڑا کرنے کے لئے پیسے نہیں ہیں‘‘۔پچھلے کچھ دنوں میں سیاسی قائدین اور کارکن متوفی لڑکی کے گھر ائے ‘ جن میں اترپردیش کے ڈپٹی چیف منسٹر دنیش شرما بھی شامل ہیں ‘ جنھوں نے پانچ لاکھ روہئے معاوضہ ادا کرنے کا بھی متوفی کے گھر والو ں سے وعدہ کیا۔

بھیم آرمی چیف چندرشیکھر آزاد جس نے متوفی گھر کادورہ کیاتھا ‘ٹوئٹر کے ذریعہ انتباہ دیا کہ اگر قاتلوں کو گرفتار نہیں کیاگیا تو وہ ’’ ملک بند کریں گے‘‘۔ تاہم لڑکے کے گھر والے او رگاؤں کے لوگوں اس واقعہ میں کسی ذات پات کے معاملے کو مستر د کررہے ہیں۔

جاٹ کسان 35سالہ راج پال سنگھ نے کہاکہ’’ اگر یہ ذات پات کا معاملہ ہوتا تو یہاں پر فساد برپا ہوجاتا تھا۔

مگر یہاں پر امن ہے ۔ یہ باہر والے او رسیاست داں وجہدکار ہیں جو اس کا ذات پات کا رنگ دے رہے ہیں‘‘۔اس واقعہ سے گاؤں میں خوف کا ماحول۔ لڑکیوں نے اسکول جانا بند کردیا۔ ’’کم سے کم چالیس لڑکیاں اسی اسکول کو جاتی تھیں ‘ بطور لڑکی وہ تمام اب گھر کے باہر قدم رکھنے میں خوفزدہ ہیں‘‘