اکٹوبر تک فلاحی اسکیمات کے بجٹ کو جاری نہ کرنے کی ہدایت

صرف آبپاشی پراجکٹس کی تکمیل پر توجہ مرکوز کرنے پر زور ، حکومت تلنگانہ کے احکامات
حیدرآباد ۔ 31۔اگست (سیاست نیوز) تلنگانہ حکومت نے محکمہ فینانس کو ہدایت دی ہے کہ اکتوبر تک فلاحی اسکیمات کا بجٹ جاری نہ کیا جائے اور صرف آبپاشی پراجکٹس کے کاموں کی تکمیل پر توجہ مرکوز کی جائے۔ ریاست میں مالیاتی بحران کو دیکھتے ہوئے حکومت نے یہ فیصلہ کیا ہے، جس کے باعث فلاحی اسکیمات جیسے فیس بازادائیگی ، اسکالرشپ اور وظائف جیسی اہم اسکیمات کے بجٹ کی اجرائی کو روک دیا گیا ہے ۔ جاریہ مالیاتی سال 2016-17 ء کے آغاز کو 5 ماہ مکمل ہوچکے ہیں لیکن ان 5 مہینوں میں فلاحی اسکیمات کیلئے بجٹ کی دوسری قسط جاری نہیں کی گئی۔ ایس سی ، ایس ٹی ، بی سی اور اقلیتی بہبود کے محکمہ جات کو دوسرے سہ ماہی کا بجٹ جاری نہیں کیا گیا۔ حکومت کے اس فیصلہ سے ریاست میں فلاحی اسکیمات پر عمل آوری بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ اسکالرشپ اور فیس باز ادائیگی کے علاوہ شادی مبارک ، کلیان لکشمی اور دیگر اسکیمات کے بجٹ کو محکمہ فینانس نے عملاً منجمد کردیا ہے۔ باوثوق ذرائع کے مطابق چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ نے عہدیداروں کے ساتھ اعلیٰ سطحی اجلاس میں آبپاشی پراجکٹس کی پیشرفت کا جائزہ لیا اور اسی وقت انہوں نے فلاحی اسکیمات کے بجٹ کو بعد میں جاری کرنے کی ہدایت دی تھی۔ چیف منسٹر کی ہدایت کے بعد سے محکمہ فینانس اقلیتی بہبود کے بلز کی اجرائی میں تاخیر کر رہا ہے جس کا نتیجہ اسکیمات کی سست رفتار عمل آوری کی صورت میں منظر عام پر آیا ہے۔

 

بتایا جاتا ہے کہ حکومت کے اس فیصلہ سے لاکھوں طلبہ ، پنشنرس اور سرکاری ملازمین متاثر ہوئے ہیں۔ جاریہ مالیاتی سال حکومت نے ایک لاکھ 33 ہزار کروڑ کا بجٹ منظور کیا تھا جس میں منصوبہ جاتی مصارف کے تحت 72195 کروڑ اور غیر منصوبہ جاتی مصارف کے تحت 61622 کروڑ مختص کئے گئے تھے۔ بتایا جاتا ہے کہ اپریل تا اگست حکومت نے 25,500 کروڑ روپئے خرچ کئے ہیں جن میں 10,000 کروڑ آبپاشی پراجکٹس پر خرچ کئے گئے۔ واٹر گرڈ اسکیم کے لئے 3,000 کروڑ ، تنخواہوں پر 8,000 کروڑ ، کسانوں کو قرض کی معافی کیلئے 2,000 کروڑ اور فیس ری ایمبرسمنٹ کیلئے 1,200 کروڑ روپئے خرچ کئے گئے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 25,544 کروڑ کے خرچ میں سے 16744 کروڑ ، منصوبہ جاتی مصارف اور 8800 کروڑ غیر منصوبہ جاتی بجٹ کے تحت خرچ کئے گئے ۔ حکومت کی اہم ترجیحات میں آبپاشی پراجکٹس ، مشن بھگیرتا ، مشن کاکتیہ اور ہریتا ہرم پروگرام ہیں جن کیلئے بجٹ کا خاصہ حصہ مختص کیا گیا ہے۔ حکومت نے محکمہ فینانس کو آبپاشی پراجکٹس کے کنٹراکٹرس اور واٹر گرڈ کے کاموں کے بلز کی ترجیحی بنیادوں پر یکسوئی کی ہدایت دی ہے۔ فلاحی اسکیمات کے لئے بجٹ کی اجرائی کے سلسلہ میں جب اقلیتی بہبود اور ایس سی ، ایس ٹی محکمہ جات کے عہدیدار محکمہ فینانس سے رجوع ہوئے تو انہیں بتایا گیا کہ حکومت نے آبپاشی پراجکٹس اور دیگر ترجیحی اسکیمات کیلئے بجٹ کی اجرائی اور فلاحی اسکیمات کے بجٹ کو اکتوبر تک منجمد کرنے کی ہدایت دی ہے۔  عہدیداروں نے اس بات کا اعتراف کیا کہ تلنگانہ میں حکومت کا مالی موقف مستحکم نہیں ہے، اگرچہ آمدنی میں 15 فیصد کا اضافہ ہوا ہے، تاہم آبپاشی پراجکٹس پر ماہانہ 2,000 کروڑ کے خرچ سے  حکومت پر کافی بوجھ پڑا ہے۔ ملازمین کی ناراضگی سے بچنے کیلئے تنخواہوں کی اجرائی کی محکمہ فینانس کو اجازت دی گئی ہے۔ فیس ری ایمبرسمنٹ اور دیگر فلاحی اسکیمات کیلئے اگرچہ بجٹ اجرائی کے احکامات جاری کئے گئے ۔ تاہم ٹریژری ڈپارٹمنٹ رقم کی اجرائی سے گریز کر رہا ہے ۔ حکومت کو اسکالرشپ اور فیس باز ادائیگی کیلئے جاریہ سال 3060 کروڑ روپئے جاری کرنے ہیں۔ تاہم ابھی تک صرف 1200 کروڑ جاری کئے گئے اور وہ بھی اقساط میں جاری ہوئے۔ 1900 کروڑ کی اجرائی  ابھی باقی ہے۔ پسماندہ طبقات کیلئے خود روزگار اسکیم کے تحت قرض کی فراہمی پر ایک ہزار کروڑ مقرر کئے گئے تھے لیکن گزشتہ دو برسوں سے اجرائی عمل میں نہیں آئی ۔ ایس سی ، ایس ٹی اور بی سی طلبہ کیلئے ہاسٹلس قائم کئے گئے لیکن طلبہ کو ابھی تک کاسمٹک چارجس کی اجرائی عمل میں نہیں آئی۔ اقلیتوں اور ایس سی طبقات کیلئے اقامتی اسکولس کا آ غاز کیا گیا۔ ان اسکولوں کی مستقل عمارتوں کی تعمیر کیلئے 1400 کروڑ کی ضرورت ہے اور یہ محکمہ جات بجٹ کیلئے محکمہ فینانس کے چکر کاٹ رہے ہیں ۔ اطلاعات کے مطابق ضعیف العمر افراد ، بیواؤں اور معذورین کے وظائف کی اجرائی میں بھی تاخیر ہوئی ہے۔ ریاست میں 32 لاکھ افراد ماہانہ وظیفہ کے اہل ہیں جس کے لئے 4,000 کروڑ کی ضرورت ہے ۔ حکومت کے اس فیصلہ نے محکمہ اقلیتی بہبود کی کئی اسکیمات کو متاثر کردیا ہے ۔ اقلیتی فینانس کارپوریشن اور دیگر ادارے اپنی اسکیمات کے آغاز کے سلسلہ میں خود کو بے بس محسوس کر رہے ہیں اور درخواست گزاروں کو تشفی بخش جواب دینے سے قاصر ہیں۔