آئنسٹائن کا خلا پر کرنے والے اسٹیفن ہاکنگ کے جا نشیں کے تئیں دنیا پُر امید

لندن ۔ 14 مارچ ۔(سیاست ڈاٹ کام)گلیلیو کی وفات اور نیوٹن کی پیدائش کے 300سال بعد آنکھیں کھولنے والے موجودہ عہد کے عظیم ماہرفلکیات، طبعیات اور ریاضی دان اسٹیفن ہاکنگ کے انتقال نے بھی امید کی جاتی ہے حسب روایت سائنسی علم کی دنیا میں کوئی خلا نہیں چھوڑا ہوگا۔ اس توقع کا فوری امکانی جواز یہ ہے کہ جب آئنسٹائن اس دنیا سے رخصت ہواتھا تو اسٹیفن ہاکنگ کی اس دنیا میں موجودگی کے 13برس ہو چکے تھے ۔ پندرہویں صدی سے یہ سلسلہ جاری ہے کہ ہر بڑا سائنسدان دنیا سے رخصت ہوتے وقت اپنے پیچھے کسی دوسرے عظیم سائنسدان کو چھوڑ کر جارہا ہے۔ جب تک ُاس نے پی ایچ ڈی مکمل کی وہ بیسویں صدی کے ذہین ترین شخص آئن سٹائن کا جانشین کہلانے لگاتھا۔ایک لاعلاج مرض کا شکار ہو جانے والے اسٹیفن کو 1962میں ڈاکٹروں نے بتا یا کہ وہ جس عارضے میں مبتلا ہو گیا ہے اُس کا بجز مرگ کوئی علاج نہیں۔ اُسی دن اسٹیفین نے طے کر لیا تھا کہ جب تک جیئے گا اپنے عہد کی تکمیل کے ساتھ جیئے گا اور ایسا کام کر جائے گا جو ایک طرف اسے موت کے خوف سے نجات دلادے اور دوسری جانب علم کے محاذ پربنی نوع انسان کی بھلائی کے امکانات کے نئے در وا ہو جائیں۔اضافیت کے دوسرے طالبعلموں کی طرح جنہوں نے اکثر اپنے آپ کو ریاضیاتی طبیعیات میں اپنے عہد شباب میں ہی ممتاز منوا لیا تھا، اسٹیفن ہاکنگ اپنی جوانی میں کوئی خاص قابل ذکر طالبعلم نہیں تھا۔ 1962ء میں اس نے پہلی دفعہ بغلی دماغ کی خشکی یا لو گیرگ بیماری(Amyotrophic lateral sclerosis, or Lou Gehrig’s Disease) کی علامات کو محسوس کیا۔ اس خبر نے اس پر بجلی گرا دی جب اس کو معلوم ہوا کہ وہ موٹر نیوران جیسے ناقابل علاج مرض کا شکار ہو گیا ہے ۔ اسٹیفن کو لاحق بیماری کے اثر کی شرح اس سے کہیں زیادہ سست رفتار تھی جتنی ڈاکٹروں کو شروع میں اندیشہ تھا۔ نتیجے میں اس نے کئی ایسے حیرت انگیز سنگ میل عبور کر لیے جو عام لوگ عام زندگی میں حاصل نہیں کرپاتے ۔ مثلاً وہ تین بچوں کا باپ بن گیا۔ مرنے سے پہلے وہ دادا بھی بن چکا تھا۔