اُردن کے صدر مملکت شاہ عبداللہ ثانی کی ہندوستان آمد پر منعقدہ استقبالیہ تقریب میں پروفیسر اخترالوسیع کے ذریعہ پیش کیاگیا خطبہ

آپ کے استقبال کے لئے اُس اُردو زبان کا استعمال کررہے ہیں جس میں عرب کا سوز بھی ہے او رعجم کا ساز بھی اور جس کی جنم بھومی
ہندوستان ہے۔

عزت مآب ہم آپ کا دل کی گہرائیوں سے تمام ہندوستانیوں کی طرف سے استقبال کررہے ہیں جس میں عرب کا سوز بھی ہے اور عجم کا ساز بھی اور جس کی جنم بھومی ہندوستان ہے۔ ہم آپ کے استقبال ایک ایسی قابل فخر سرزمین پر کررہے ہیں جسے دنیا کی سبس ے بڑی سکیولر جمہوریت ہونے کاشرف بھی حاصل ہے او ردنیا کی تمام مذہبی روایات کے سنگم ہونے کا بھی۔

اس ملک کا دستور تمام ہندوستانیوں کو مساوی طور پر شہری آزادی ‘ مذہبی روداری ‘ قانون کی پاسداری اور اقلیتوں کو خصوصاً بنیادی حقوق عطاکرتا ہے ۔ جہاں تک ہندوستان کی پوری دنیا میں مذہبی تکثریت کا سوال ہے ہم اسے خدائے برتر کی مرضی ومنشا کا نتیجہ مانتے ہیں ورنہ قادر مطلق اگر چاہتا تو سب کو ایک ہی مذہبی سانچے میں ڈھال دیتا ۔ ہم آپ کا استقبال اس سرزمین پر کررہے ہیں جسے جنت سے نکالے گئے آدم کے لئے مسکن کے طور پر چنا گیا تھا۔

جہاں سے سراپا رحمت رسول اکرم حضرت محمد صلی اللہ وعلیہ وسلم کو ٹھنڈی ہوائیںآتی تھیں۔ ہمیں ناز ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ وعلیہ وسلم سے خاندانی نسبت رکھنے والے دنیا کے ایم ممتاز مدبر‘ پیکردانش‘ امن وخیرسگالی کے نقیب ایک عظیم رہنما حکمراں اورسربراہ مملکت یعنی شاہ اردن کا خیر مقدم واستقبال کررہے ہیں۔

ہمیں اس ببات پر فخر ہے کہ دنیا میں مسلمانوں کی دوسری بڑی آبادی اس ملک میں بستی ہے اور یہ وہ ملک ہے جس نے علوم اسلامی کی ہر شاخ میں ‘ ہردور میں غیرمعمولی خدمات انجام دی ہیں اور اخوت ومساوات اور آمن وآشتی کے پیغام کو عام کیا ہے۔

نام تو نہ جانے کتنے ہیں لیکن وقت کی کمی سب کے تذکرے کی اجازت نہیں دیتی مگر حضرت خواجہ معین الدین چشتی اور خواجہ نظام الدین اولیاء کے وصل خواہی اور صلح کل کا پیغام ایک طرف ہے تودوسری طرف روایت اور جدیدیت کے نمائندہ تعلیمی ادارے نہ صرف ایک ایسی مشترکہ اور شمولیت پسند سوچ کو فروغ دیتے ہیں جوکسی طرح کی انتہا پسندی کو قبول نہیں کرتے۔آپ کے استقبال میں والہانہ انداز سے جو لگ یہاں جمع ہوئے ہیں یہ اس ملک کے مذہبی تہذیبی اور ثقافتی افق کے آفتاب وماہتاب ہیں اور ایک ایسے سماج اور نظام کا حصہ ہیں جہاں نہ کوئی حاکم ہے نہ محکوم بلکہ سب اقتدار میں برابر کے شریک ہیں۔

اس اسٹیج پر ہمارے محترم المقام وزیر اعظم کے ساتھ جو لوگ آپ کے ساتھ تشریف فرما ہیں‘ ان میں دنیا بھر میں کوئی بوہرہ کمیونٹی کے داعی کے نمائندے ڈاکٹر شہزادہ بھائی صاحب عزالدین‘ مرکز السنیہ کے کیرالا سربراہ شیخ ابوبکر مسلیا‘ فقہ جعفری او رسماجی اصلاح وفلاح کا روشن چہرہ مولانا کلب صادق ‘ ہندوستان میں مرکزی جمعیت اہل حدیث کے قائد امیرمولانا اصغر علی امام مہدی سلفی او رمتحدہ قومیت کے نقیب ‘ جدوجہد آزادی کے شریک تاریخ ساز جمعیت العلماء ہند کے جنرل سکریٹری مولانا محمودمدنی شامل ہیں۔ اسٹیج پر اگر تنگ دامانی مانع نہ ہوتی کہ اس مجمع کثیر میں ایسے ایسے لوگ بیٹھے ہیں جن پر بلاشبہ ہندوستان فخر کرتا ہے او رجن کے ماننے والے کی بہت بڑی تعداد ہے ۔

ہم انہیں بھی آپ کے ساتھ تشریف فرما ہونے کی زحمت دیتے۔ہمارے ملک کے سماجی وتہذیبی تانے بانے میں ویدک روایات ‘ مہاتما بدھ کا عرفان ‘ مہاویر جین کے عدم تشدد کی تعلیم‘ سکھ مت کا وحد الہ کا پیغام کے ساتھ ہی سامی مذاہب کی خداپرستی اور انسان دوستی برابر شامل ہے۔

یہ وہ سرزمین ہے جہاں اسلام نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ ہی میں آگیاتھا او ر جنوبی ہندوستان کے ساحلی علاقے کیرالا میں پہلی مسجد کی تعمیر ہوگئی تھی۔ہمیں اس بات پر فخر ہے کہ ہندوستان میں مسلمانوں کے تمام طبقات ہرجماعت‘ تمام مسالک کے رہنماؤں اور ہر مسلم قائد اور صحافی نے زبان ‘ قلم او رعملی سطح ھر جلسے اور جلوس کے ذریعہ دہشت وحشت کا کاروبار کرنے والوں کی پرزور مذمت کی ہے۔ سب سے زیادہ فتویٰ ہمارے علماء کرام اور مفتیان عظام نے جاری کئے۔

جمعیت العلماء ہند ہو یا مرکزی جمعیت اہلحدیث ‘ ورلڈ صوفی فورم ہویا جماعت اسلامی یا پھر تبلیغی جماعت سب نے اپنے اپنے دائروں میں تشدد او رنفرت کے بیوپاریوں کی بھر پور مذمت بھی کی او رشکر ہے کہ ہندوستانی معاشرے کو ان کے منفی اثرات سے محفوظ رکھنے میں بڑی کامیابی حاصل کی۔

مجھے اسی وگیان بھون میں ہمارے محترم وزیراعظم کا ورلڈ صوفی فورم میں دیاگیا وہ کلیدی خطبہ یاد ہے جس میں انہوں نے اللہ جل شانہ کے 99اسماء الحسنی کا تذکرہ کرتے ہوئے بڑے پتے کی بات کہی تھی کہ ان میں ایک بھی نام زور زبردستی اور تشدد سے تعلق نہیں رکھتا ہے بلکہ ان کی ابتداء بھی اللہ کے رحمان ورحیم ہونے سے ہوتی ہے ۔

ہمارے محترم وزیراعظم نے دنیا کے بڑے صوفیوں کے ساتھ ساتھ ہندوستان کے اکابر صوفیا اور علماء جیسے مولانا آزاد او رمولانا حسین احمد مدنی کے حوالے سے یہ بات کہی تھی کہ اسلام نہ تو تشدد کا مذہب ہے اور نہ وہ مذہب کی بنیاد پر کسی تقسیم کا روادار ہے۔

ہندوستان میں تصوف کے ذریعہ جو روایت ابھر کر سامنے ائی اس میں خدا کی پرستش ‘ بندوں کی بلاتفریق خدمت او روطن سے محبت اس کے لانیفک اجزاء ہیں۔ مجھے یہ بات کہنے میں بے حد خوشی ہے کہ ہندوستانی مسلمانوں نے اس معاملہ میں اپنی ہر حکومت ساتھ کے پورا اشتراک کیاہے۔

ہمیں اس بات کا پوری طرح احساس ہی نہیں بلکہ اعتراف ہے کہ آپ نے بھرا پورفراست سے کام لیتے ہوئے عمان ڈکلیریشن کے ذریعہ آج سے بہت پہلے دنیا کو امن ومساوات کا پیغام دیاتھا اس پر اگر دنیانے توجہ دی ہوتی تو آج تشدد‘ انتہا ہسندی اور دہشت گردی کا عفریت ننگا ناج رہا ہوتا۔

آپ کی رہنمائی اور ہدایت مسلکی عناد وفساداور تکفریت کے خلاف جو کانفرنس عمان ہی میں بلائی تھی اس میں شریک اور چم دید گواہ کی حیثیت سے مجھے یہ کہنے میں کوئی تکلف نہیں کہ اگر صد دلی سے اس پر عمل کیاگیا ہوتاتو اسلام اور مسلمان دنیا میں بہت سے آزمائشوں سے دوچار اور شرمسار نہ ہوتے۔

عزت مآب آج کا دن اس اعتبار سے بھی تاریخی ہے کہ اسی وگیان بھون میں ہمارے وزیراعظم کے ہاتھوں ہمارے عہد کی ایک اہم کتاب۔’’تھنکینگ پرسن گائیڈ ٹو اسلام‘‘ کے اُردو ترجمہ کی رسم رونمائی بھی ہوگی او راس کی پہلی کاپی آپ کی خدمت میں پیش کی جائے گی۔

یہ کتاب اس روشن دماغ عالم نے لکھی ہے جو عالم اسلام کا روشن ترین چہرہ ہے اور جسے دنیا ایچ آر ایچ پرنس غازی بن محمد کے نام سے جانتی ہے۔ اس کتاب کی ایک بڑی اہمیت یہ ہے کہ اس کا مقدمہ خود آپ نے بہ نفس نفیس تحریرفرمایا ہے ۔

ہمارے لئے یہ فخر کی بات ہے کہ اس کا جمعیت علماء ہند جیسی معتبر تنظیم کے قائد حضرت مولانا محمود مدنی نے ترجمہ کرایا تاکہ جہاں اُردو بولنے والے موجود ہیں وہ اس سے فائدہ اٹھاسکیں ۔

ہم خدائے بزرگ وبرتر کی بارگاہ میں دست بہ دعا ہیں کہ وہ صحت وعافیت کے ساتھ آپ کا اقبال تادیر بلند رکھے او راُردن اورہندوستان کے بیچ خیرسگالی ‘ باہمی تعاو ن کے ساتھ اس دنیاکو انسانوں کے رہنے کے قابل بنانے میں دونوں ملک او ران کی قیادتیں اہم رول ادا کرتی رہیں