اولیاء کرام کیلئے ’’ رحمتہ اللہ علیہ‘‘ کا استعمال

سوال : کیا فرماتے ہیں علماء دین متین اس مسئلہ میں کہ حضرت پیران پیر رحمتہ اللہ علیہ کے اسم مبارک کے ساتھ دعائیہ جملہ’’ رحمتہ اللہ علیہ‘‘ تحریر کرنا شرعاً کیا حکم رکھتا ہے ؟ اس سلسلہ میں شرعاً کوئی نکیر، امرِ مانع یا کوئی پہلو سوئے ادب کا ہو تو کاتب الحروف رجوع اور توبہ و استغفار کی طرف مبادرت کرے !
نام مخفی
جواب : فقہاء نے صحابہ کرام کے لئے ’’ رضی اللہ عنہ ‘‘ تابعین کیلئے ’’ رحمتہ اللہ تعالیٰ ‘‘ اور مابعد تابعین کیلئے ’’ غفراللہ لھم و تجاوز عنھم ‘‘ کے دعائیہ کلمات کو اولیٰ قرار دیا۔ عالمگیری جلد 6 ص : 446 میں ہے ۔ ثم الأولیٰ أن یدعوللصحابۃ بالرضا فیقول رضی اللہ عنطم و للتا بعین بالرحمۃ و یقول رحمہ اللہ ولمن بعد ھم بالمغفرۃ والتجاوز فیقول غفراللہ لھم وتجاوز عنھم۔
متاخرین علماء نے صحابہ تابعین اور دیگر علماء و صالحین کیلئے ’’ رضی اللہ عنہ ‘‘ اور رحمتہ اللہ ‘‘ کے کلمات کو مستحب قراردیا ہے ۔ نزھۃ الناظرین ص : 34 میں ہے : قال النووی رحمۃ اللہ یستحب الترضی والترحم علی الصحابۃ والتابعین و من بعد ھم من العلماء والعبادو سائرلاخیار۔
پس صورت مسئول عنہا میں اگر کوئی شخص حضرت غوث اعظم دستگیرؒ کے لئے ’’ رضی اللہ عنہ ‘‘ ’’ رحمۃ اللہ ‘‘ اور ’’ علیہ الرحمتہ ‘‘ سے کونسی بھی دعائیہ کلمہ استعمال کرے تو شرعاً محمود و پسندیدہ ہے۔
سورہ یسین کی تلاوت سے
عذاب قبر میں تخفیف
سوال : لوگ ایصال ثواب کے لئے عموماً قرآن خوانی کا اہتمام کرتے ہیں۔ برسی ، چہلم کے موقعہ پر خصوصیت کے ساتھ ختم قرآن ہوتا ہے اور مرحوم کے لئے ایصالِ ثواب کیا جاتا ہے ۔کیا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم سے کوئی روایت موجود ہے جس میں قرآن کو ایصال ثواب کا ذریعہ بنایا گیا ہے ۔
سید قاسم ، جھرہ
جواب : نورالاایضاح باب احکام الجنائز میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو شخص قبرستان میں داخل ہوکر سورۃ یسین کی تلاوت کرے تو اللہ تعالیٰ اہل قبور کے عذاب میں اس دن تخفیف فرمالے گا اور تمام اہل قبور کی تعداد کے موافق پڑھنے والے کو نیکیاں ملیں گی۔
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنھما نے دفن کے بعد قبر پر سورۃ البقرۃ کی پہلی آیتیں ’’ الم ‘‘ سے ’ ’المفلحون‘‘ اور ’’ آمن الرسول ‘‘ سے ختم سورہ تک پڑھنا مستحب قرار دیا۔ (در مختار باب الجنائز مطلب فی دفن المیت )
مسلم شریف کی روایت میں ہے : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب کسی مسلمان کا انتقال ہوجاتا ہے تو اس کا عمل منقطع ہوجاتا ہے ۔ سوائے تین چیزوں سے ۔ ایسا علم جس سے نفع اٹھایا جائے۔ صدقہ جاریہ اور نیک اولاد جو اس کے لئے دعاء مغفرت کرتے رہے۔
اس حدیث شریف سے واضح ہے کہ اگر کوئی شخص کسی کو قرآن پڑھنا سکھائے تو جب وہ قرآن پڑھیگا اللہ تعالیٰ قرآن پڑھنے والے کے ساتھ قرآن سکھانے والے کو بھی اجر و ثواب عطا فرمائے گا۔
مصنوعی دانت اور وضو و غسل
سوال : میری عمر ساٹھ سال سے متجاوز ہے، سامنے کے چار دانت کمزور ہوکر گرگئے ہیں، ڈاکٹر نے آزو بازو کے دانتوں کے سہارے چار مصنوعی دانت مستقل طورپر لگادیئے ہیں۔ قابل دریافت بات یہ ہے کہ دوران وضو / غسل کلی کرتے وقت مصنوعی دانتوں کے نیچے اور آزو بازو کے دانتوں جن پر غلاف چڑھا ہوا ہے، پانی نہیں پہنچتا، کیا وضو مکمل ہوگا۔ اگر نہیں تو کیا کرنا چاہئے ۔
عبدالقوی، پھسل بنڈہ
جواب : وضو میں مضمضہ (کلی کرنا) مسنون ہے، اور غسل میں فرض ہے ، احناف کے نزدیک مضمضہ پانی کو منہ میں لیکر اندرونی حصہ کا احاطہ کرنے کو کہتے ہیں۔ ردالمحتار جلد اول کتاب المطہارۃ میں ہے : فالمضمضۃ اصطلاحا استیعاب الماء جمیع الفم و فی اللغۃ التحریک۔ لہذا جس نے مصنوعی دانت لگائے ہیں اگر وہ غسل کے وقت مشقت کے بغیر اچھی طرح کلی کرلے تو غسل ہوجائے گا۔ دانتوں پر چڑھے ہوئے غلاف کے سبب پانی نہ پہنچ سکے تو مضائقہ نہیں۔
اکرام مسلم
سوال : آپ کے اس کالم میں شرعی مسائل اور اس کے احکام بیان کئے جاتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ مسلم سماج میں پھیلی ہوئی برائیوں کی نشاندہی کی جاکر اسلامی نقطہ نظر سے رہبری کی جاتی ہے۔ آج مسلمان میں بداخلاقی، مفاد پرستی ، خود غرصی ، کوٹ کوٹ کے بھر چکی ہے ۔ دوسروں کے کام آنا ، ہمدردی کرنا ، خیر خواہانہ جذبہ رکھنا ناپید ہے ۔ ایک دوسرے کی شکایت کرنا ، احترام کے خلاف گفتگو کرنا، توہین کرنا عام ہوتے جارہا ہے ۔ ان حالات میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کی روشنی میں مذکورہ احوال پر رہبری فرمائی جائے تو بہت بہتر ہے ؟
محمد اکبر ، دبیر پورہ
جواب : اسلام میں اکرام مومن کی کافی اہمیت ہے۔ دوسروں سے متعلق حسن ظن رکھنا اور اچھا سلوک کرنا اخلاقی فریضہ ہے ۔ دوسروں کیلئے آپؐ کے دل میں ہمیشہ ہمدردی اور مہربانی کے جذبات موجزن رہے ۔اس مسئلہ میں آپؐ کے نزدیک اپنے بیگانے ، آزاد اور غلام کی کوئی تمیز نہ تھی ۔ آپؐ اکثر فرمایا کرتے تھے : ’’ میرے سامنے دوسروں کی ایسی باتیں نہ کیا کرو جنہیں سن کر میرے دل میں ان کے متعلق کوئی کدورت پیدا ہوجائے کیونکہ میں چاہتا ہوں کہ میں سب سے صاف دل (سلیم الصدر) کے ساتھ ملوں ‘‘ (ابو داؤد : السنن ، 183:5 ، حدیث 4860 : الترمذی 71:5 ، حدیث 3896 ، مطبوعہ قاہرہ 1965 ئ) ۔ ایک مرتبہ حضرت عبداللہؓ بن مسعود نے دو افراد کے متعلق آپؐ کو کوئی شکایت پہنچائی ۔ جسے سن کر آپؐ کا چہرہ سرخ ہوگیا اور آپؐ نے حضرت عبداللہؓ بن مسعود کو کنایۃً فرمایا کہ ’’ اس طرح کی باتیں مجھے نہ پہنچایا کرو ‘‘ (الترمذی ، محل مذکور ، البخاری ، 127:4 ) ۔ اس کے برعکس آپؐ اپنے پاس بیٹھنے والوں کو ترغیب دیا کرتے تھے کہ وہ دوسروںکے حق میں اچھی باتیں کیا کریں۔ ایک موقع پر فرمایا : ’’ لوگوں کی میرے سامنے سفارش کرو تاکہ تم اجر پاؤ اور اللہ ا پنے نبیؐ کی زبان پر جو چاہے فیصلہ جاری کردے (البخاری ، الادب ، مسلم (البر) ، 1026:4 ، حدیث 2627 ) ۔ یہی ہمدردی اور خیر خواہی کا جذبہ تھا کہ آپؐ فرمایا کرتے تھے کہ ’’ میں نے اللہ سے پختہ عہد لے رکھا ہے کہ اگر (ولو بالفرض) میری زبان سے کسی کے حق میں کوئی غیر مفید دعا یا جملہ نکل بھی جائے تو اللہ تعالیٰ متعلقہ فرد کو اس کے بدلے میں رحمت ، دل کی پاکیزگی اور روز قیامت میں قربت عطا فرمادے (مسلم ، 2000:4 ، حدیث 2600 تا 2604 ) ، آپؐ فرمایا کرتے تھے کہ ’’ اخلاق کی بلندی یہ نہیں کہ تم اس کے ساتھ نیکی کرو جو تمہارے ساتھ نیکی کرے اور اس کے ساتھ برائی کرو جو تمہارے ساتھ برائی کرے ، بلکہ صحیح اخلاق تو یہ ہے کہ ہر شخص سے نیک سلوک کرو خواہ وہ تم سے برے طریقہ ہی سے پیش آئے یا تم سے زیادتی کرے‘‘۔ اسی بناء پر آپؐ کے نزدیک نیکی کا مفہوم حسنِ خلق ، یعنی دوسروں سے اچھا برتاؤ تھا ۔ آپؐ کا ارشاد ہے ’’ البر حسن الخلق ‘‘ (مسلم ، 1980:4 ، حدیث 2552 ) ۔ آپ نے فرمایا:’’ ا کمل المؤمنین ایماناً احسنھم خلقا ‘‘ (الترمذی : السنن : 3 ، 469 ، حدیث 1162 ، ابو داؤد 6:5 ، حدیث 4682 )۔ ایمان کی تکمیل اخلاق اور طر ز معاشرت کی تکمیل کے بغیر نہیں ہوسکتی ، فرمایا ’’ ان خیارکم احسنکم اخلاقاً ‘‘ (البخاری ، 121:4 ، کتاب 78 ، باب 39 ) ، یعنی تم میں وہی بہتر ہے جس کا اخلاق دوسروں سے اچھا ہو ۔ ایک بار آپؐ نے فرمایا کہ ’’ اچھے اخلاق والے کو اچھے اخلاق کی وجہ سے روزے دار اور قائم اللیل کا درجہ مل جاتا ہے (ابو داؤد : السنن ، 141:5 ، حدیث 4798 ) آپؐ کے نزدیک حسن خلق سے مراد چہرے کی بشاشت ، بھلائی کا پھیلانا اور لوگوں سے تکلیف دہ امور کا دور کرنا ہے (الترمذی ، 363:4 ، حدیث 20005 ) ۔
صرف یہی نہیں بلکہ آپؐ اس جذبے کو پورے انسانی معاشرے میں رواں دواں دیکھنا چاہتے تھے، ارشاد ہے : تم اس وقت تک مسلمان نہیں ہوسکتے جب تک دوسروں کیلئے بھی وہی پسند نہ کرنے لگو جو خود اپنے لئے پسند کرتے ہو ‘‘ (مسلم ، 67:1 ، حدیث 45 ، احمد بن حنبل : مسند ، 272:3 ) ۔ ایک موقع پر فرمایا : ایک دوسرے سے نہ تو رو گردانی اختیار کرو اور نہ ایک دوسرے کے اندرونی معاملات کی خواہ مخواہ ٹوہ لگاؤ اور اے اللہ کے بندو ! سب بھائی بھائی ہوجاؤ ‘‘ (مسلم 1985:4 ، حدیث 2563 ، البخاری 128:4 ، کتاب الادب) ۔ یہی وجہ تھی کہ نہ صرف مسلمان بلکہ غیر مسلم بھی آپؐ کے درِ دولت سے پوری طرح مستفید ہوتے رہے۔
صلوٰۃ الجنازہ کے بعد
سوال : ایک مسجد میں نماز جنازہ میں شریک ہونے کا اتفاق ہوا ، نماز جنازہ کے بعد بعض قریبی رشتہ داروں نے میت کے دیدار کی خواہش ظاہر کی ، جس پر میت کا کفن کھولکر میت کا دیدار کرایا گیا ۔ قریبی رشتہ داروں کے علاوہ مسجد کے مصلیوں نے بھی دیدار کیا، مگر ایک صاحب کہہ رہے تھے کہ جب نماز جنازہ ادا کردی جاتی ہے تو پھر میت کا دیدار نہیں کرایا جاسکتا۔ اس سلسلہ میں میری رہنمائی فرمائیں تو مہربانی ۔
عابد خان، مشیر آباد
جواب : مسجد میں نماز جنازہ کے بعد میت کے کفن کو کھولکر میت کا دیدار کرانے میں شرعاً کوئی حرج نہیں۔ البتہ بعد تدفین یہ عمل مکروہ ہے ۔ عالمگیری جلد 5 ص : 351 میں ہے : لا بأس بأن یرفع سترالمیت لیری وجھہ وانما یکرہ ذلک بعد الدفن کذا فی القنیۃ۔
سلام کے بعد مصلیوں کی طرف رخ کرنا
سوال : ہماری مسجد کے امام صاحب ہمیشہ سلام پھیرنے کے بعد مصلیوں کی طرف رخ کیا کرتے تھے۔ اب چند دن سے کبھی وہ سیدھے جانب اور کبھی بائیں جانب رخ کر رہے ہیں۔ شرعی لحاظ سے صحیح طریقہ کیا ہے؟
نام …
جواب : سلام پھیرنے کے بعد امام کے پلٹنے کی کیفیت کے بارے میں اختلاف ہے۔ بعض نے کہا کہ سیدھے جانب رخ کرنا چاہئے اور بعض نے کہا کہ مصلیوں کی طرف رخ کرنا چاہئے اور بائیں جانب رخ کرنے کی بھی گنجائش ہے۔ اصل مقصد یہ ہے کہ سلام پھیرنے کے بعد مسجد میں داخل ہونے والے کو کوئی شبہ باقی نہ رہے، اس لئے امام کو پلٹنے کا حکم ہے۔ اس کو تینوں جہتوں میں سے کسی بھی جانب رخ کرنے کا اختیار ہے۔ بدائع الصنائع جلد اول ، ص : 394 میں ثم اختلف المشائخ فی کیفیۃ الانحراف
قال بعضھم : ینحرف الی یمین القبلۃ تبر کا بالتیامن ۔ و قال بعضھم : ینحرف الی الیسار لیکون یسارہ الی الیمین ، و قال بعضھم : ھو مخیر ان شاء انحرف یمنۃ وان شاء یسرۃ، وھو الصحیح لان ماھوالمقصود من الانحراف وھو زوال الاشتباہ یحصل بالأمرین جمیعاً۔