اندر کمار گجرالؔ (1919-2012)

میرا کالم مجتبیٰ حسین
اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے میں اردو والوں کو یہ بتانا بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ گجرال صاحب نے اردو کے ہر معاملہ کو صرف سفارش کے طور پر رپورٹ میں پیش کر نے پر ہی ا کتفا نہیں کیا بلکہ انہوں نے اپنے خصوصی اختیارات اور شخصی رسوخ کا استعمال کرتے ہوئے رپورٹ کی پیشکشی سے بہت پہلے ہی کئی ریاستی حکومتوں کو پابند کیا کہ وہ اردو کے فروغ کیلئے خصوصی اور عملی اقدامات کریں۔ انہوں نے ریاستوں کے چیف منسٹروں کو بے شمار خطوط لکھے۔ چنانچہ یہ گجرال صاحب کا ہی شخصی کارنامہ ہے کہ آج ہندوستان کی کئی ریاستوں میں اردو اکیڈیمیاں قائم ہیں۔ ریڈیو میں اردو پروگراموں کا وقت بڑھایا گیا ۔ پہلی مرتبہ نیشنل کونسل آف ایجوکیشنل ریسرچ اینڈ ٹریننگ جیسے قومی ادارہ کو پابند کیا گیا کہ وہ ہندی اور انگریزی کے علاوہ اردو میں بھی نصابی کتابیں شائع کرے ۔ کئی اسکولوں میں اردو کی تعلیم کا بندوبست کیا گیا ۔ مجھے لگتا ہے کہ گجرال صاحب کو جیسے اندازہ تھا کہ اس کمیٹی کی رپورٹ کے ساتھ بعد میں کیا سلوک کیا جائے گا۔ اسی لئے انہوں نے دور اندیشی سے کام لیتے ہوئے ان معاملوں کو رپورٹ کا حصہ بنانے کے ساتھ ساتھ ان پر فوری عمل آوری کی جانب بھی قدم اٹھایا ۔
گجرال کمیٹی کا ذکر کچھ طویل ہوگیا ہے لیکن گجرال صاحب کا جب بھی ذکر ہوگا تو گجرال کمیٹی کا ذکر تو آئے گا ہی ۔ کہا جاپان کا ڈر ہے کہا جاپان تو ہوگا والا معاملہ ہے۔ میں گجرال کمیٹی کی رپورٹ کو صرف حکومت کی ایک رپورٹ نہیں سمجھتا بلکہ اسے اردو کیلئے گجرال صاحب کی شخصی محبت کا ایک دستاویزی ثبوت تصور کرتا ہوں۔ اردو گجرال صاحب کیلئے ایک زاویہ نگاہ ہے ، طرزِ زندگی ہے اور زندگی کو برتنے کے سلیقہ کا نام ہے ۔ اردو ان کے مزاج کا سب سے روشن پہلو ہے ۔
اردو کے ہر بڑے ادیب اور اردو کی ہر اچھی تحریک سے گجرال صاحب کا ذاتی تعلق رہا ہے ۔ میں گجرال صاحب کی عزت صرف اس لئے نہیں کرتا کہ وہ ایک سیاست داں ہیں بلکہ اس لئے کرتا ہوں کہ وہ سیاست داں سے بہت آگے کی چیز ہیں۔ وہ پہلے ایک مدبر اور دانشور ہیں اور بعد میں سیاست داں ہیں۔ اسی لئے تو ان کی کہی ہوئی بات میں معنی اور نیّت کو تلاش کرنے میں کوئی دشواری نہیں ہوتی۔ وہ جو لفظ بھی استعمال کرتے ہیں اس کے صحیح معنی و مفہوم کو ذہن میں رکھ کر استعمال کرتے ہیں۔ دیگر سیاستدانوں کی طرح نہیں کہ لفظوں کے معنی تک نہیں جانتے لیکن ان کا بے دریغ استعمال کرتے چلے جاتے ہیں۔
گجرال صاحب بین الاقوامی سیاسی حالات پر کتنی گہری نظر رکھتے ہیں اس کی مثال پیش کرنے کیلئے میں آپ حضرات کی توجہ ان کے اس مضمون کی جانب مبذول کروانا چاہتا ہوں جو ابھی دو ہفتہ پہلے روزنامہ ’’سیاست‘‘ میں شائع ہوا تھا ۔ انہوں نے سوویت یونین کے بدلتے ہوئے حالات کا تفصیلی جائزہ لیتے ہوئے یہ پیشن گوئی کی تھی کہ سوویت یونین میں گوربا چوف کو اقتدار سے ہٹانے کے لئے بہت جلد بغاوت برپا ہوجائے گی اور اس مضمون کی اشاعت کے 24 گھنٹوں میں سوویت یونین میں بغاوت ہوگئی ۔اگر گوربا چوف نے ایک دن پہلے یہ مضمون پڑھ لیا ہوتا تو ان کی وہ حالت نہ ہوتی جو آج یلتسین کے ہاتھوں ہوتی دکھائی دینے لگی ہے ۔ اردو نہ جاننے کا یہی تو نقصان ہے ۔
مجھے اس وقت سوویت یونین کے ایک سینئر ڈپلومیٹ کی بات یاد آرہی ہے جس سے کچھ دن پہلے دہلی کی ایک محفل میں ملاقات ہوئی تو میں نے سوویت یونین کا حال پوچھا ۔ اس نے رازدارانہ انداز میں مجھ سے کہا تھا ’’جناب والا دنیا کے ہر ملک کا مستقبل غیر یقینی ہوتا ہے اور اس کے مستقبل کے بارے میں کوئی پیشین گوئی نہیں کی جاسکتی لیکن سوویت یونین دنیا کا واحد ملک ہے جس کے ماضی کے بارے میں کوئی پیشین گوئی نہیں کی جاسکتی ۔ ہمیں پتہ ہی نہیں چلتا کہ آنے والے کل میں ہمارے ماضی میں کیا ہونے والا ہے ‘‘۔ مجھے اس ڈپلومیٹ کی بات اچھی لگی تھی اور آپ دیکھ رہے ہیں کہ لوگ اب آنجہانی لینن کے حالات زندگی کو ، جواُن کے جیتے جی بہت اچھے تھے ، ان کی وفات کے کم و بیش سات دہوں بعد بگاڑنے میں لگے ہوئے ہیں ۔ مگر گجرال صاحب نے سوویت یونین کی حا لیہ بغاوت کی کامیاب پیشین گوئی کر کے یہ ثابت کردیا ہے کہ آدمی میں صحیح سیاسی تدبر اور سوجھ بوجھ ہو تو کسی بھی ملک کے مستقبل کے بارے میں پیشین گوئی کی جاسکتی ہے ۔ چاہے وہ ملک سوویت یونین ہی کیوں نہ ہو۔
گجرال صاحب کی یہ ادا مجھے بہت پسند ہے کہ سیاستداں ہونے کے باوجود وہ ادیبوں، فنکاروں اور دانشوروں کی صحبت میں اپنے آپ کو زیادہ مطمئن اور مسرور پاتے ہیں۔ ان کے گھر کا ماحول بھی کچھ ایسا ہی ہے ۔ ان کے بھائی ستیش گجرال ہندوستان کے مایہ ناز آرٹسٹ ہیں، ان کی بیگم محترمہ شیلا گجرال پنجابی اور ہندی کی مشہور شاعرہ ہیں ، نہایت رکھ رکھاؤ کی خاتون ہیں۔ ایک مقولہ ہے کہ ہر بڑے آدمی کی کامیاب زندگی کے پیچھے ایک عورت کا ہاتھ ہوتا ہے ، بشرطیکہ عورت بھی بڑے آدمی کو بڑا آدمی سمجھے ۔ یہ محترمہ شیلا گجرال کی بڑائی نہیں تو اور کیا ہے کہ وہ بھی گجرال صاحب کو بڑا آدمی سمجھتی ہیں۔
گجرال صاحب نہ صرف بڑے دانشور اور سیاستداں ہیں بلکہ بہت بڑے ادیب بھی ہیں۔ جب بھی انہیں فرصت نصیب ہوتی ہے تو وہ ہندوستان کے متعدد رسائل کے علاوہ اردو کے روزنامہ ’’سیاست‘‘ کے لئے پابندی سے مضامین لکھتے ہیں۔
پچھلے بیس برسوں میں میں نے گجرال صاحب کے کئی دور دیکھے ہیں ۔ مرکزی وزارت اطلاعات کے وزیر والا وہ دور بھی دیکھا جب ان کے چہرے پر لینن مارکہ داڑھی نہیں تھی (قطع کلام معاف ۔ اب جبکہ سوشلسٹ ملکوں میں لینن کے مجسموں کو ہٹایا جارہا ہے اور ان کی تصویریں نکالی جارہی ہیں ، آنے والی نسلوں کو ہم گجرال صاحب کے حوالہ سے یہ بتاسکیں گے کہ لینن کی داڑھی کیسی تھی اور ان کے نظریات کیا تھے ) میں نے اُن کا وہ دور بھی دیکھا ہے جب وہ بظاہر اقتدار کی کرسی پر نہیں تھے لیکن ان کے منہ سے نکلا ہوا ایک لفظ بڑی بڑی کرسیوں پر بیٹھنے والوں کیلئے ایک حکم کا درجہ رکھتا تھا ۔ اسی لئے تو میرا ذاتی خیال یہ ہے کہ کرسی پر بیٹھ کر کہا جانے والا لفظ خود اپنے میں کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔ اہمیت اس بات کی ہوتی ہے کہ یہ لفظ کس کے منہ سے ادا ہورہا ہے ۔ مجھے یاد ہے کہ میرے اور میرے بعض احباب کے کئی مشکل کام گجرال صاحب کے اُس وقت کے لفظوں سے پورے ہوگئے تھے جب وہ اقتدار کی کرسی پر براجمان نہیں تھے ۔ گجرال صاحب کا شخصی اقتدار کسی بھی کرسی کا مرہون منت نہیں رہا ۔ یوں کہئے کہ ان کا نام ہی ایک منصب جلیلہ ہے ۔
میرے پاس کہنے کو بہت سی باتیں ہیں لیکن مجھے وقت کی تنگی کا احساس ہے۔ آخر میں اتنا کہوں گا کہ گجرال صاحب اب صرف ایک فرد نہیں رہ گئے ہیں بلکہ ہمارے کلچر کی بہترین روایات کی ایک علامت بن گئے ہیں ۔ اردو والوں کے اعتماد کا نام اندر کمار گجرال ہے ۔ سیکولرازم کا ہندوستانی ترجمہ اندر کمار گجرال ہے ۔ انسان دوستی اور رواداری کو اندر کمار گجرال بھی کہتے ہیں۔ میرے ساتھ اکثر یہ ہوتا ہے کہ موجودہ پُرآشوب حالات کو دیکھ کر میں خوفزدہ سا ہوجاتا ہوں۔ دہلی کی دھکے کھاتی ہوئی اور گرتی پڑتی زندگی سے میں مایوس سا ہوجاتا ہوں تو ایسے میں اچانک نہ جانے کیوں گجرال صاحب کا خیال آجاتا ہے ۔ میں سوچتا ہوں کہ یہ کیا کم ہے کہ اس سنگین دور میں گجرال صاحب جیسی دو ایک شخصیتیں ہمارے بیچ موجود ہیں۔ اس ا حساس کے ساتھ ہی میں اطمینان کا ایک لمبا سانس لیتا ہوں اور میرے لئے اطمینان کے اسی لمبے سانس کا نام اندر کمار گجرال ہے ۔
(11 مئی 1990 ئ)