انتشار کو بڑھانا ،مودی حکومت کا فرقہ پرستانہ ایجنڈہ

رام پنیانی
نریندر مودی 2014 ء میں اقتدار پر آنے سے نام نہاد ذیلی گروپوں کو ایسا اشارہ ملا کہ اب اُن کی حکومت قائم ہوگئی ہے اور وہ اپنی نفرت آمیز تقاریر اور حرکتوں کے ساتھ بڑی آسانی سے بچ نکل سکتے ہیں۔ جہاں تک نفرت پھیلانے یعنی تشدد کی بنیاد کا معاملہ ہے ، آر ایس ایس کی مجموعی طاقت نے بالکلیہ بے باکانہ انداز میں یہ کام کیا ہے۔ یوں تو سابقہ یو پی اے اقتدار کے دوران بھی آر ایس ایس والوں کے لیڈر نفرت پر مبنی تقریر کرنے میں سب سے آگے رہے، لیکن اب نفرت پھیلانے کے معاملے میں ان کا پوری طرح غلبہ ہوگیا ہے۔ اس بارے میں این ڈی ٹی وی رپورٹ کافی دلچسپ ہے۔ ’’این ڈی اے کی موجودہ میعاد کے دوران کئے گئے نفرت پر مبنی 90% تبصرے بی جے پی سیاستدانوں کی طرف سے ہوئے ہیں۔ این ڈی اے دور میں جملہ 44 سیاسی قائدین نے نفرت انگیز تبصرے کئے۔ ان میں سے 34 سیاستدان یعنی 77% بی جے پی سے ہیں۔ 10 قائدین یا 23% مرتکبین کا تعلق دیگر سیاسی جماعتوں سے ہے، جن میں کانگریس، سماج وادی پارٹی اور لالو یادو کا راشٹریہ جنتال دل شامل ہیں۔‘‘ فرقہ وارانہ مسائل وقفے وقفے سے اٹھائے جاتے رہے ہیں۔ بی جے پی کے ونئے کٹیار نے کہا کہ مندر ایودھیا میں بننا ہی ہوگا۔ یہ بات ایسے وقت کہی گئی جبکہ متعلقہ امور عدالت میں زیردوراں ہیں۔ اسی طرح آر ایس ایس سربراہ موہن بھاگوت اعلان کرتے آرہے ہیں کہ مندر اُن کی زندگی میں ضرور تعمیر کرلیا جائے گا۔
گائے، بیف کے نام پر ہجوم کے تشدد کے واقعات بڑھتے ہی جارہے ہیں۔ محمد اخلاق اور جنید تو ذہن میں فوری اُبھر آنے والے چند نام ہیں، لیکن ایسے کئی ہیں جن کو جنونی ہجوموں نے گائے کے چمڑے نکالنے، گاؤ ذبیحہ، گائے کی تجارت جیسی باتوں کی آڑ میں حملوں کا نشانہ بنایا ہے۔ IndiaSpend کے پاس دستیاب اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ تشدد کی ایسی حرکتیں مودی سرکار میں بڑھتی گئی ہیں۔ میڈیا رپورٹس کے مواد کا تجزیہ کرنے پر حاصل شدہ ڈیٹا کے مطابق تقریباً آٹھ برسوں (2010ء تا 2017ئ) میں مویشیوں کے مسئلوں پر پیش آئے 51% تشدد کا نشانہ مسلمان رہے اور 63 واقعات میں ہلاک 28 ہندوستانیوں میں وہ 86% ہیں۔ ان میں سے تقریباً 97% حملے وزیراعظم نریندر مودی کی حکومت مئی 2014ء میں تشکیل پانے کے بعد سے درج ہوئے ہیں، اور گائے سے متعلق تشدد کے 63 واقعات میں سے لگ بھگ نصف (32) بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) حکمرانی والی ریاستوں پیش آئے، جو 25 جون 2017ء تک دستیاب ڈیٹا سے معلوم ہوا ہے۔

قوم پرستی سے متعلق جذباتی مسائل چھائے رہے ہیں۔ آر ایس ایس کے موہن بھاگوت نے اوائل مارچ 2016ء میں کہا تھا کہ ’’اب وقت آچکا ہے کہ ہمیں نئی نسل کو کہنا پڑے گا کہ بھارت ماتا کی جئے کا نعرہ لگائیں‘‘۔ اس طرح کا کوئی نعرہ ہمارے دستور میں نہیں ہے، جبکہ بعض لوگ کسی بھی تحفظ کے بغیر ’جئے ہند‘ کا نعرہ لگانے کو ترجیح دیتے ہیں۔ لوو جہاد کا مسئلہ ہولناک موڑ لے چکا ہے۔ 6 ڈسمبر 2017ء کو ایک غریب مسلم مزدور افرازل خان کے سفاکانہ قتل نے قوم کو دہلا ڈالا۔ اُس کے قاتل شمبھو لال ریگر نے نہ صرف اسے موت کے گھاٹ اُتارا، اُسے جلایا، بلکہ اس سارے گھناؤنے واقعے کا ویڈیو ٹیپ بناکر اُسے دنیا والوں کیلئے وائرل کردیا۔ افرازل کی شمبھولال کے ہاتھوں ہلاکت لوو جہاد کے بارے میں انتشارپسند قوتوں کے سوشل میڈیا پروپگنڈے سے متاثر ہوکر کیا گیا جرم ہے اور اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس نظریہ سے پیدا شدہ نفرت سماج کے تانے بانے کو کس قدر بے رحمی سے نقصان پہنچا سکتی ہے۔ شمبھو کو سوسائٹی کے بعض گوشوں کی تائید حاصل ہے اور اُس کی فیملی کیلئے فنڈز اکٹھا کئے گئے جس سے پتہ چلتا ہے کہ نفرت کی صورتحال سطحی نہیں ہے۔ یہ ماحول گہرائیوں تک سرایت کرتا جارہا ہے اور تمام تر ہندو قوم پرستی کی باتیں پھیلائی جارہی ہیں۔ اس واقعہ کے بارے میں پی یو سی ایل رپورٹ کا کہنا ہے کہ شمبھو لال آر ایس ایس کی نفرت پیدا کرنے والی فیکٹری کا نتیجہ ہے اور یہ نفرت کے سفاکانہ جرم میں ملوث ہوا۔ اس جرم سے خوفزدہ ہوکر کئی بنگالی تارکین وطن مزدور اپنی ریاست کو واپس ہوگئے ہیں۔

ہندومت اختیار کرلینے کے معاملے میں آگرہ میں (10 ڈسمبر 2014ء کو) سلم بستی میں رہنے والے اور کچرہ چننے والے تقریباً 350 افراد اور دیگر پریشان حال طبقات سے وعدہ کیا گیا کہ اگر وہ مذہبی تقریب میں حصہ لیتے ہیں تو انھیں راشن کارڈ اور بی پی ایل کارڈز دیئے جائیں گے۔ یہ کام بجرنگ دل کارکنان اور ہندو جن جاگرتی سمیتی نے کیا جو دونوں آر ایس ایس کی ملحقہ تنظیمیں ہیں۔ یہ سارا عمل ’گھر واپسی‘ مہم کا حصہ ہے۔
اس طرح کے تمام مجرمین کی عیارانہ حوصلہ افزائی میں وزیراعظم ’نفرت پر مبنی جرائم‘ کے بارے میں عام طور پر طویل مدت تک خاموش رہتے ہیں اور پھر یکایک بے کیف بیان دیتے ہیں، جو عملاً مجرمین کی کچھ سرزنش نہیں کرتا بلکہ وہ اُن کے اس طرح کے برتاؤ سے مزید حوصلہ پاتے ہیں۔ یوگی حکومت نے اقتدار کے چھ ماہ کی تکمیل پر ٹورازم ڈیولپمنٹ سے متعلق ایک بروشر نکالا۔ اس کتابچہ میں یو پی کے سب سے بڑے سیاحتی مقام تاج محل کا تذکرہ حذف کردیا گیا ہے۔ بی جے پی کے بعض قائدین نے تو تاج محل کو خارجیوں کی حکمرانی کی علامت اور قوم کیلئے شرم کا معاملہ قرار دے دیا۔ فلم پدماوتی کا مسئلہ نہایت پُرتجسس رہا۔ اس فلم کی ریلیز سے قبل ہی احتجاج کئے گئے، حتیٰ کہ فلم کا مشاہدہ نہیں ہوا تھا۔ ایسا باور کرایا گیا کہ یہ فلم راجپوت عزت نفس کیلئے توہین ہے۔ یہ فلم ایک ناول، قیاسی کہانی پدماوت پر مبنی ہے۔ پدماوتی کوئی تاریخی کردار نہیں بلکہ وہ قیاس کی پیداوار ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس فلم نے خلجی کو کچھ اس انداز میں پیش کیا ہے کہ وہ ظالم ہے، عورتوں کے پیچھے پڑا رہتا ہے اور تہذیب و تمدن سے عاری شخص ہے، جبکہ تاریخی شواہدات سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ وہ مہذب بادشاہ تھا، جس نے نہ صرف حوض خاص تعمیر کرایا بلکہ دہلی میں تجارت کے مارکیٹ میکانزم کو سادہ اور کارگر بھی بنایا۔

چونکہ نفرت کی تقریریں اور تاریخ سے متعلق بیانات جو مسلمانوں کو خراب شبیہہ میں پیش کرتے ہیں، یہ سب مائل بہ عروج ہونے سے فرقہ وارانہ تشدد بھی بڑھ گیا، جس کا مظاہرہ سال 2017ء میں دیکھنے میں آیا جب اس طرح کے تشدد میں 17% اضافہ ہوا (2016ء میں 703 واقعات سے 2017ء میں 822 واقعات ہوگئے)۔ کاس گنج تشدد ایک نئے نہج پر پیش آیا جو تشدد پر اُکسانے کا نیا طریقہ ہے۔ اے بی وی پی۔ وی ایچ پی ورکرز کا گروپ ہتھیاروں سے لیس ہوکر اس مسلم محلہ میں گھس گیا اور بھارت ماتا کی جئے اور مخالف پاکستان نعرے لگانے لگا۔ وہ چاہتے تھے کہ مسلمان لوگ جو تب یوم جمہوریہ کا جشن منا رہے تھے، وہاں کی تنگ گلیوں سے گزرنے کیلئے پہلے اُن کی ریلی کیلئے راستہ دیں اور پھر تشدد بھڑک اُٹھا۔ اسی طرح کٹھوعہ ریپ اور قتل بدستور گہری شرمندگی کا معاملہ برقرار رہے گا۔ یہاں سرگروہی یا سرقبیلی پہلو کے علاوہ فرقہ پرستی کا بھی عنصر کارفرما رہا ہے۔
نام نہاد ضمنی گروپوں کی ہٹ دھرمی اور نفرت کی تقریروں میں اضافہ ایسے ماحول کا موجب بن رہے ہیں جہاں مذہبی اقلیتوں میں عدم سلامتی کا احساس بڑھ چکا ہے۔ دہلی کے آرچ بشپ کوٹو کی بھوک ہڑتال کرنے کی اپیل احساسِ بے چارگی کا محض چھوٹا سا اشارہ ہے، جو اقلیتوں کو مودی سرکار میں خائف کئے جارہا ہے، جو ہندو راشٹرا کے اپنے ایجنڈے پر عمل پیرا ہے۔