الور ہجومی تشدد : دہلی میں عوامی مظاہرہ ، راجستھان کے وزیر اعلی او روزیر داخلہ سے مستعفی ہونے کا مطالبہ

نئی دہلی : راجستھان کے الور میں مبینہ طور پر گؤ رکشک کے نام پر پر بھیڑ کے ذریعہ پیٹ پیٹ کر موت کے گھاٹ اتار دئے گئے اکبر خان کے ساتھ انصاف او رملزمین کے خلاف سخت کارروائی کی مانگ کے لے کر آج سینکڑوں کی تعداد میں انسانی حقوق کارکنان نے زبر دست احتجاج درج کر وایا ۔دہلی کے انڈیا گیٹ سرکل میں واقع بیکانیر ہاؤس پر معروف سماجی کارکنوں نے مظاہر ہ کرتے ہوئے حکومت کے خلاف نعرہ بازی کی اور راجستھان کی وزیر اعلی وسندھرا جے اور ریاستی وزیر داخلہ گلاب سنگھ کٹیار سے استعفیٰ کا مطالبہ کیا ۔واضح رہے کہ ۲۰؍ جولائی کو گؤ رکشک غنڈوں نے گایوں کے اسمگلنگ کے بہا نے ۳۲؍ اکبر خان کو پیٹ پیٹ کر موت کے گھاٹ اتار دیا تھا ۔

موقع واردات پر پہنچی پولیس پہلے گائے کو گاؤ شالہ لے گئی او رپھر اکبر خان کو اسپتال لے گئی ۔جب تک وہ مرچکا تھا ۔ یونائیٹیڈ اگینسٹ ہیٹ کی جانب سے شدت پسند تنظیموں او ربھگواغنڈوں کیخلاف ہوئے مظاہرے میں شامل احتجاجیو ں نے بے دردی سے ہوئے قتل پر جہاں راجستھان کی وسندھرا جے حکومت کو پوری طرح قصوروار قرار دیا وہیں وزیر اعظم نریندر مودی کی سربراہی حکومت کو بھی نشانہ بنایا ۔احتجاجیو ں نے آر ایس ایس او ربی جے پی پر اقلیتوں کے قتل کیلئے پورے طور پر ذمہ دار ٹھہرایا ۔مظاہرین نے ہجومی تشدد کا شکار ہوئے اکبر خان قتل معاملہ کی مکمل طور پر منصفانہ طریقہ سے تحقیقات کروانے او ر قتل میں ملوث اصل مجرمین کو گرفتار او ر سخت سزا ء او رساتھ اکبر خان کے اہل خانہ کو معاوضہ دئے جانے کا مطالبہ کیا ہے ۔

اس موقع پر سماجی کارکن ندیم خان نے کہا کہ جب الور کے ایم ایل اے گیان دیو آہوجا نے کہاکہ اکبر خان کی موت بھیڑ کی پٹائی سے نہیں بلکہ پولیس کی مار سے ہوئی ہے ۔وہیں گلاب چند کٹیار نے بھی تسلیم کیا ہے کہ اکبر کی موت پولیس حراست میں ہوئی ہے ۔تب ایسے میں ذمہ داری بنتی ہے کہ وہاں کے ایس پی راجندر سنگھ ، سمیت دیگر اعلی افسران اس معاملے کو نوٹس لیں او راصل ملزمین کے خلاف سخت کارروائی کریں۔

ندیم خان نے افسوس کے ساتھ کہا کہ ایک زخمی انسان تڑپ رہا ہے ۔اور پولیس اہل کار ہوٹل میں چائے پی رہے ہیں ۔پولیس اسپتال لے جانے کے بجائے گؤ شالہ لے کر گئے ہیں ۔اس دوران اکبر دردسے چیختا رہا اب تو انتہا ہوگئی ہے کہ شہریوں کے تحفظ کی قسم کھانے والے خضرات غنڈوں جیسا کردار ادا کررہے ہیں ۔اب بھی ایسے ملزموں کو اگر حکومت خاکی وردی پہننے کا حق دیتی ہے تو گویاپھر کسی شخص کی موت کا جنازہ نکلنا دیکھنا چاہتی ہے ۔