اعجاز صدیقی (1978-1911

میرا کالم مجتبیٰ حسین
انگریزی کے شہرہ آفاق ادیب مارک ٹوئن نے ایک ادبی محفل میں اس طرح تقریر کی تھی ’’دوستو، انگریزی ادب پر بڑا بُرا وقت آن پڑا ہے۔ شیکسپیئرؔ اب ہمارے درمیان نہیں رہا۔ ملٹن ؔ اللہ کو پیارا ہوچکا۔ ورڈ سورتھؔ بھی اس جہاں سے کوچ کرچکا۔ اور تو اور پچھلے چند دنوں سے میری صحت بھی خراب چل رہی ہے‘‘۔
اعجازؔ صدیقی کے بارے میں لکھتے ہوئے نہ جانے کیوں مارک ٹوئن کی یہ تقریر بے ساختہ یاد آ گئی۔ اس کی ایک وجہ غالباً یہ ہوکہ اردو پر سچ مچ بُرا وقت آن پڑا ہے۔ دوسری وجہ یہ کہ اعجاز صاحب بھی ہر بات کا سلسلہ اپنی خرابی صحت سے جوڑنے کے عادی تھے۔ مسئلہ ادب کا ہو یا سیاست کا وہ اپنی خرابی صحت کا سلسلہ اس سے ضرور جوڑ دیا کرتے تھے۔ میرے پاس ان کے بے شمار خطوط ہیں۔ ہر خط کے آغاز میں یا آخر میں وہ اپنی بیماری کا ذکر بڑی تفصیل اور بڑے ذوق و شوق کے ساتھ کیا کرتے تھے۔ رائج الوقت بیماری کا ذکر کچھ ایسی اپنائیت اور چاؤ سے کیا کرتے تھے کہ لگتا تھا انہیں اس بیماری سے پیار ہوگیا ہے۔ پھر لطف کی بات یہ ہوتی تھی کہ ہر خط میں ایک نئی بیماری کا ذکر ہوتا تھا اور جب وہ اپنے مخصوص اندازِ بیان اور اچھوتے اسلوب کے ذریعہ اس بیماری کی جزئیات پر روشنی ڈالنے لگتے تو ایک سماں باندھ دیتے تھے اور زیرِ تحریر بیماری میں ایک نئی جان ڈال دیتے تھے۔ بارہ تیرہ سال سے اُن سے خط و کتابت تھی۔ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ انہوں نے کسی خط میں اپنی بیماری کا ’’دوسرا ایڈیشن‘‘ نکالاہو۔ یوں کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ اُن کی ہر بیماری نہ صرف یہ کہ ’’غیرمطبوعہ‘‘ ہوا کرتی تھی بلکہ ’’قابلِ اشاعت‘‘ بھی ہوا کرتی تھی۔ اُن کی بیماریوں میں بھی ایک قسم کا تنوّع تھا۔  ؎
ہر لحظہ نیا طور ،نئی برقِ تجلی
اکثر بیماریوں کے بارے میں میری معلومات میں اضافہ اعجاز صاحب کے خطوں کے ذریعہ ہی ہوا۔ میں اکثر مذاق میں اپنے دوستوں سے کہا کرتا تھا کہ اعجاز صاحب نے بیماریوں کا اتنا عملی تجربہ حاصل کرلیا ہے کہ کوئی یونیورسٹی انہیں اس تجربہ کی بناء پر ایم بی بی ایس کی ڈگری دے سکتی ہے۔ عملی تجربہ علم سے کہیں زیادہ معتبر اور مستند ہوتا ہے۔ دو سال پہلے کی بات ہے، دوستوں کی محفل میں ایک صاحب نے شرط لگائی کہ اگر کوئی شخص اعجاز صاحب کا ایسا خط دکھادے جس میں کسی بیماری کا ذکر نہ ہو تو وہ اسے سو روپئے دیں گے۔ ایک شاعر نے بڑی کوشش کے بعد ایک خط ایسا حاصل کیا اور ان صاحب سے شرط کی رقم کا طلبگار ہوا۔ یہ صاحب بہت سٹپٹائے۔ اس لئے کہ اس خط میں سچ مچ کسی بیماری کا ذکر نہیں تھا۔ اعجاز صاحب کی اس غیرمتوقع صحتمندی سے مایوس ہوکر جب یہ صاحب پوسٹ کارڈ نیچے رکھنے لگے تو اچانک ان کی نظر پوسٹ کارڈ کے اس حصے پر پڑی جہاں ڈاک کی مہریں لگی ہوتی ہیں۔ وہاں نہایت خفی حروف میں لکھا تھا ’’بسترِعلالت سے‘‘۔ان کی شخصیت کا یہ ایک عجیب و غریب پہلو تھا کہ دوستوں اور ملاقاتیوں کو اپنی خرابی صحت سے ضرور آگاہ کرتے تھے یہ اور بات ہے کہ جب بھی ان سے ملاقات ہوتی تو وہ اتنی ساری بیماریوں کے باوجود چاق و چوبند اور زندگی کے سفر میں سرگرم عمل دکھائی دیتے۔ میرا دعویٰ ہیکہ وہ جتنا کام کرتے تھے اتنا کام ہم جیسے کئی صحتمند آدمی مل کر بھی انجام نہیں دے سکتے۔ انہیں دیکھ کر جی چاہتا کہ اے کاش ہم بھی اتنی بیماریوں میں مبتلا ہوں اور ہمیں بھی اتنا کام کرنے کی توفیق عطا ہو۔ دیکھنے کو وہ تھے تو دھان پان سے آدمی لیکن ان میں کام کرنے کی لگن اور جستجو کچھ ایسی تھی کہ ہر وقت کام میں لگے رہتے تھے۔
ان سے خط و کتابت تو پہلے سے تھی لیکن ان سے میری پہلی ملاقات ۱۹۶۸ء میں ہوئی جب میں خواجہ عبدالغفور صاحب کی دعوت پر ’’سرسنگار سمسد‘‘ کے قہقہہ پروگرام میں شرکت کے لئے بمبئی گیا۔ اعجاز صاحب کی ایک خوبی یہ بیان کروں کہ وہ ہر ادیب سے یکساں برتاؤ کرتے تھے۔ ادیب چاہے چھوٹا ہو یا بڑا، اسے وہ ایک آنکھ سے دیکھتے تھے۔ چھوٹوں سے ملتے بھی تو ان پر اپنی بزرگی کو لادنے کی کوشش نہیں کرتے تھے، ادب کے دیگر بزرگوں کی طرح نہیں کہ جہاں کوئی چھوٹا دکھائی دیا اس کے سر پر اپنی بزرگی کا بھاری پتھر لاد دیا اور چھوٹوں کی قوتِ برداشت کا تماشہ دیکھتے رہے۔ اعجاز صاحب میں یہ سب کچھ نہیں تھا۔ وہ رسالوں کے دیگر مدیروں کی طرح نہیں تھے کہ اپنے قلمکاروں سے ناز اُٹھواتے پھریں۔ غالباً یہی وجہ تھی کہ انہیں اپنے ماہنامہ ’’شاعر‘‘ کے لئے ہر حلقے سے بھرپور تعاون ملتا تھا۔ہاں تو میں یہ عرض کررہا تھا کہ ان سے میری پہلی ملاقات ۱۹۶۸ء میں ہوئی تھی۔ میں بمبئی میں خواجہ عبدالغفور صاحب کا مہمان تھا۔ جیسے ہی بمبئی پہنچا ان کا فون آیا کہ ’’شاعر‘‘ کے دفتر پر کب آرہے ہو۔ میں نے دوسرے دن آنے کا وعدہ کرلیا۔ اُن کے بڑے لڑکے تاجدار احتشام سے میری دوستی تھی مگر کبھی اعجاز صاحب سے ملاقات نہیں ہوئی تھی۔ بس ان سے خط و کتابت تھی۔ میں یہ چاہتا تھا کہ جب ان سے ملاقات ہو تو تاجدار بھی موجود رہیں۔ اس لئے کہ بزرگوں سے ملتے ہوئے یوں بھی طبیعت بوجھل سی ہوجاتی ہے۔ اپنی افتاد طبع کے باعث میں بزرگوں اور حد سے زیادہ شریف آدمیوں سے ملتے ہوئے بہت گھبراتا ہوں۔ یوں لگتا ہے جیسے آپ ملاقات نہ کررہے ہوں بلکہ کسی ملازمت کا انٹرویو دے رہے ہوں۔ زیادہ دیر تک احتیاط سے سانس لینا اور اپنے اعصاب پر تناؤ کو مسلط کرنا کبھی بھی پسند نہ آیا۔ لہٰذا میں نے اعجاز صاحب سے گزارش کی کہ ’’اگر تاجدار بھی اس وقت موجود رہیں تو مناسب ہے‘‘۔ بولے ’’تاجدار تو آپ سے بعد میں مل لیں گے، آپ کے دوست جو ٹھہرے مگر کبھی ہمیں بھی ملاقات کا موقع دیجئے‘‘۔
میں نے ان کے دفتر کا پتہ پوچھا تو بولے ’’خواجہ عبدالغفور صاحب یا یوسف ناظم صاحب سے پتہ پوچھ کر آجائیے، بہت آسان پتہ ہے‘‘۔
میں نے کہا ’’آسان پتہ ہے تو آپ ہی بتادیجئے‘‘۔
بولے ’’آپ یوسف ناظم سے پوچھ لیجئے‘‘۔
میں نے غفور صاحب سے ’’شاعر‘‘ کا آسان پتہ پوچھا تو انہوں نے فرمایا کہ یوسف ناظم سے یہ آسان پتہ پوچھ لیجئے۔ میں یوسف ناظم کے ہاں پتہ پوچھنے گیا تو انہوں نے مجھے جواباً ایک ٹیکسی میں بٹھادیا۔ ٹیکسی چلنے لگی تو میں نے کہا ’’مجھے پتہ تو بتادیجئے‘‘۔
بولے ’’میں نے ٹیکسی والے کو پتہ سمجھادیا ہے۔ آپ پتہ سمجھ کر کیا کریں گے‘‘۔
تھوڑی دیر بعد ٹیکسی والے نے مجھے ایک ایسی جگہ اُتار دیا جہاں کھڑکیوں اور دروازوں میں کئی شوخ حسینائیں کھڑی ’’دعوتِ عیش‘‘ دے رہی تھیں۔ سڑک کے دونوں طرف چار منزلہ عمارتیں ایستادہ تھیں اور ان عمارتوں کی کھڑکیوں میں سے ’’حُسن‘‘ اُبلا پڑرہا تھا۔ تھوڑی دیر کے لئے میں اس ماحول میں پہنچ کر حیران سا رہ گیا۔ مجھے یہ تک یاد نہیں رہا کہ میں اعجاز صدیقی صاحب سے ملنے کے لئے آیا ہوں۔ نوبت وہی تھی کہ   ؎
اُدھر جاتا ہے دیکھیں یا اِدھر پروانہ آتا ہے
پھر اِدھر اُدھر گھوم کر ’’شاعر‘‘ کا بورڈ تلاش کرنے کی کوشش کی مگر ہر کوشش میں کسی حسینہ سے آنکھیں ’’تین‘‘ ہوگئیں۔ چار اس لئے نہیں ہوئیں کہ نظریں ملتے ہی حسینہ کی ایک آنکھ بند ہوجاتی تھی۔ مجھے اس وقت قدیم قصے کہانیاں بے ساختہ یاد آئیں جن میں آدمی ’’گوہرمقصود‘‘ کو حاصل کرنے کے لئے نکلتا تھا تو راستے میں جگہ جگہ اس کی ’’صدق دلی‘‘ کا امتحان لیا جاتا تھا۔ اسے ’’صراطِ مستقیم‘‘ سے بھٹکانے کی پوری کوشش کی جاتی تھی۔ میں نے بھی دل میں ٹھان لی کہ چاہے کچھ بھی ہو میں ہر آزمائش سے گزر کر اپنے گوہرِ مقصود یعنی اعجاز صاحب تک پہنچ جاؤں گا۔ تاہم میں سخت پریشان تھا کہ اس ’’بازارِحسن‘‘ میں اعجاز صاحب کو آخر کہاں تلاش کروں۔ بالآخر مجھے ایک پنواڑی کی دکان نظر آگئی جس پر جابجا اردو شعر لکھے ہوئے تھے۔ دو شعر اب تک یاد ہیں ؎
مدعی لاکھ برا چاہے تو کیا ہوتا ہے
وہی ہوتا ہے جو منظورِ خدا ہوتا ہے
در و دیوار پہ حسرت کی نظر کرتے ہیں
خوش رہو اہلِ وطن ہم تو سفر کرتے ہیں
اگرچہ ان اشعار کا پنواڑی کے کاروبار سے کوئی راست تعلق نہیں تھا مگر میں نے سوچا کہ آدمی سخن فہم معلوم ہوتا ہے، اسے ’’شاعر‘‘ کا پتہ ضرور معلوم ہوگا۔ لہٰذا میں نے بڑی پُرامید نگاہوں کے ساتھ اس کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا… ’’بھئی یہاں شاعر کا دفتر کہاں ہے؟‘‘
پنواڑی نے بڑی بے نیازی کے ساتھ جواب دیا ’’حضور، آپ کہاں ’’شاعر‘‘ کو تلاش کرنے آئے ہیں۔ یہاں کوئی شاعر واعر نہیں رہتا۔ یہاں تو صرف ’’غزلیں‘‘ رہتی ہیں اور وہ بھی بغیر مقطع والی۔ جب مجسم غزلیں آپ کے سامنے ہوں تو شاعر کو لے کر کیا کیجئے گا؟‘‘۔
اس سخن فہم پنواڑی کے جواب سے میں مایوس ہوگیا۔ اسی اثناء میں میری نظر سامنے والی بلڈنگ پر پڑی تو دیکھا کہ حسیناؤں کے اس جھرمٹ سے ذرا دور تیسری یا چوتھی منزل کی ایک کھڑکی سے ایک نحیف و نزار شخص کا چہرہ بھی دکھائی دے رہا ہے۔ میں نے سوچا ہو نہ ہو یہی اعجاز صاحب ہوں گے۔ میں جابجا اپنے ضبط کا امتحان دیتے ہوئے جب صحیح و سالم حالت میں تیسری منزل پر پہنچا تو سچ مچ یہ ’’شاعر‘‘ کا دفتر تھا اور اعجاز صاحب میرے منتظر تھے۔ جاتے ہی گلے سے لگا لیا۔ بڑی شفقت سے اپنے پاس بٹھالیا۔ پھر پوچھا ’’آپ کو یہاں پہنچنے میں کوئی تکلیف تو نہیں ہوئی؟‘‘
میں نے کہا ’’تکلیف! کیسی تکلیف؟ مجھے تو یہاں آکر خوشی ہوئی ہے‘‘۔اعجاز صاحب اور بازارِ حسن دونوں سے میری یہ پہلی ملاقات تھی۔ وہ کتابوں، رسالوں، خطوط اور مسودوں کے بھاری انبار کے درمیان ایک تخت پر بیٹھے تھے۔ غالباً کسی کو خط لکھ رہے تھے۔ پہلی ملاقات میں انہوں نے کچھ ایسی بے تکلفی اور اپنائیت کا ثبوت دیا کہ اُن کی ’’بزرگی‘‘ پر پیار سا آگیا۔ حسبِ عادت پہلے تو اپنی بیماریوں کا حال بیان کرتے رہے پھر اپنے خاندان کے ایک ایک فرد کو طلب کرکے ملوایا۔ میں نے محسوس کیا کہ وہ اپنے بچوں کے ساتھ بھی ’’دوستانہ برتاؤ‘‘ کرتے تھے۔
ہمارے ہاں بعض شاعر اور ادیب ’’پیدائشی‘‘ ہوتے ہیں لیکن ’’پیدائشی مدیر‘‘ میں نے اعجاز صاحب کے علاوہ کوئی نہیں دیکھا۔ اپنے رسالے کے لئے ادیبوں کا تعاون وہ جس طرح حاصل کرتے تھے اسے دیکھ کر حیرت ہوتی تھی۔ ان کا معمول تھا کہ ادیبوں کو بڑی پابندی سے خط لکھتے تھے۔ مضمون کے لئے پہلے ان کا خط آتا تھا، پھر چند دنوں بعد یاد دہانی کا خط آتا تھا۔ اس کا جواب نہ دیا جائے تو تیسرا خط آتا تھا، جس کی پیشانی پر لال روشنائی سے ’’اشد ضروری‘‘ لکھا ہوتا تھا۔ پھر خط کے متن میں کئی جملے لال روشنائی سے خط کشیدہ ہوتے تھے۔ (کچھ احباب کا خیال تھا کہ وہ تینوں خط ایک ہی وقت میں لکھ دیتے تھے جنہیں وہ وقفہ وقفہ سے پوسٹ کردیتے تھے)۔ اس بیچ بمبئی سے کوئی آتا تھا تو زبانی یاد دہانی سے بھی باز نہیں آتے تھے۔ اس کے بعد بھی ادیب ٹس سے مس نہ ہو تو ٹیلیگرام کرنے پر اُتر آتے تھے۔ میں نے ’’شاعر‘‘ کے لئے اکثر مضامین ان کے ’’اشد ضروری‘‘ والے خط کے بعد ہی بھیجے۔ البتہ ایک مضمون ٹیلیگرام کے بعد بھیجا۔ ایک بار کچھ یوں ہوا کہ مضمون کے لئے میرے پاس ان کا پہلا خط آیا۔ اتفاق سے میرے پاس ایک مضمون تیار تھا، سو میں نے فوراً بھیج دیا۔ اس پر انہوں نے حیران ہوکر خط لکھا ’’ایسا معلوم ہوتا ہے کہ آپ کے اندر کچھ خرابیاں پیدا ہوتی جارہی ہیں، پہلے ہی خط پر مضمون بھیج دیا۔ یہ کوئی اچھی علامت نہیں ہے۔ کسی اچھے ڈاکٹر کو دکھائیے اور اپنا علاج کرائیے‘‘۔ وہ ادیبوں اور شاعروں کے مزاج سے خوب واقف تھے۔ وہ دیگر مدیروں کی طرح نہیں تھے کہ کسی ادیب کی کوئی چیز چھاپ کر یہ سمجھ لیا کہ اس ادیب کی سات پشتوں پر احسان کردیا ہے۔ اعجاز صاحب کا معاملہ بالکل الٹا تھا۔ وہ اپنی کسر نفسی، عجز و انکسار کے باعث یہی سمجھتے تھے کہ ادیب نے ان پر احسان کیا ہے۔ مجھے اس بات کا اعزاز حاصل ہے کہ یہ جو ’’شاعر‘‘ میں پچھلے چار برسوں سے ادیبوں اور شاعروں کے گوشے شائع ہورہے ہیں تو ان کا آغاز میری ہی تجویز پر ہوا تھا۔ چار سال پہلے میں نے اعجاز صاحب کو خط لکھ کر تجویز پیش کی تھی کہ وہ ’’شاعر‘‘ میں فکرؔ تونسوی کا گوشہ شائع کریں۔ عادت کے مطابق وہ میری اس تجویز کا ایک مدیر کی حیثیت سے بہت دنوں تک جائزہ لیتے رہے۔ خطوط لکھے، نئے نکات اٹھائے، نتائج و عواقب پر غور کیا، تخمینہ بنایا کہ ادیب کے بلاک پر کتنا صرفہ آئے گا، کتنے صفحات گوشے کے لئے رکھے جائیں، گوشے میں کیا کیا ہونا چاہئے۔ بہت غوروفکر کے بعد وہ فکرؔتونسوی کا گوشہ شائع کرنے کے لئے تیارہوگئے۔ یہ گوشہ پسند کیا گیا تو انہوں نے کئی گوشوں میں صاحبِ گوشہ کا خاکہ مجھ ہی سے لکھوایا۔ کم از کم پانچ گوشوں کے لئے میں نے خاکے لکھے۔ جب تک وہ ’’پلاننگ‘‘ نہیں کرتے تھے، تب تک ’’شاعر‘‘ کے تعلق سے کوئی فیصلہ نہیں کرتے تھے۔ کم از کم ہندوستان میں اردو صحافت کو ’’پلاننگ‘‘ سے روشناس کرانے میں ان کا بڑا ہاتھ تھا۔ ’’شاعر‘‘ کے کئی ضخیم نمبر اُن کی ’’پلاننگ‘‘ کا جیتا جاگتا ثبوت ہیں۔ مدیر کی حیثیت سے وہ بڑے سخت مزاج آدمی تھے۔ جب تک کوئی چیز ان کے معیار کی کسوٹی پر پوری نہیں اترتی تھی تب تک اسے اپنے رسالے میں جگہ نہیں دیتے تھے۔ مجھے یہ اعتراف کرنے میں کوئی عار نہیں کہ اعجاز صاحب وہ واحد ایڈیٹر تھے جنہوں نے میرے ایک مضمون کو یہ کہہ کر واپس کردیا تھا کہ یہ ’’شاعر‘‘ میں نہیں چھپ سکے گا لیکن مضمون کو واپس کرتے وقت کچھ اس طرح کا خط لکھا تھا کہ اسے پڑھ کر ان کی رائے سے متفق ہونا پڑا۔اعجاز صاحب کی ایک ادا مجھے ہمیشہ پسند رہی کہ اتنے اہم ادبی رسالے کے مدیر ہونے کے باوجود انہوں نے اس رسالہ کو کبھی اپنی ذاتی شہرت کے لئے استعمال نہیں کیا۔
اعجاز صاحب سے بمبئی، حیدرآباد اور دہلی میں کئی ملاقاتیں ہوئی۔ اور ہر ملاقات کے بعد ان کی وضعداری، مروّت، نیک نفسی اور شرافت کا تاثر اور گہرا ہوتا چلاگیا۔ اعجاز صاحب آدمی نہیں تھے، ایک تہذیب تھے، ایک علامت تھے۔ اب مٹی ایسے انسانوں کو پیدا کرنے سے قاصر ہوتی جارہی ہے۔ان کی ذات میں بڑا سلیقہ اور رکھ رکھاؤ تھا۔ ان سے ۱۰ جنوری ۱۹۷۸ کو دہلی میں آخری ملاقات ہوئی تھی۔ وہ آمنہ ابوالحسن کے گھر دوپہر کے کھانے پر مدعو تھے۔ میں اپنی دفتری مصروفیات کے باعث اس دعوت میں شریک نہیں ہوسکتا تھا۔دوپہر میں ٹھیک ایک بجے میرے دفتر کے فون کی گھنٹی بجی۔ دوسری طرف سے اعجاز صاحب بول رہے تھے ’’بھئی میں آمنہؔ کے گھر سے بول رہا ہوں۔ جب تک آپ نہیں آئیں گے تب تک میں کھانا نہیں کھاؤں گا۔ میں آپ کا انتظار کررہا ہوں‘‘۔
میں نے دفتر کی مجبوریوں کا ذکر کیا۔ پھر فاصلے کا حوالہ دیا کہ اگر میں اپنی گاڑی سے بھی نکلوں تو پہنچنے میں پون گھنٹہ لگ جائے گا۔بولے ’’چاہے دو گھنٹے ہی کیوں نہ لگ جائیں۔ آپ کا آنا نہ صرف ضروری بلکہ اشد ضروری ہے‘‘۔
میں نے اپنے ذہن میں فوراً اس ’’اشد ضروری‘‘ کے نیچے لال روشنائی سے ایک لکیر بھی کھینچ دی۔ میں جانتا تھا کہ اس ’’اشد ضروری‘‘ کے بعد وہ فون نہیں کریں گے بلکہ ٹیلیگرام کریں گے۔ چاروناچار میں بھاگابھاگا آمنہؔ کے ہاں پہنچا تو وہ میرے منتظر تھے۔ بڑے پیار سے ملے۔ وہ علی گڑھ سے اسی دن واپس ہوئے تھے۔ خلاف توقع اس دن انہوں نے اپنی خرابی صحت کا ذکر نہیں کیا البتہ اردو زبان و ادب کے مسائل کا ذکر ضرور کرتے رہے۔ اگرچہ پرہیزی کھانے کھاتے تھے لیکن اس دن آمنہ کے پکوان کی تعریف کرکے ہر قسم کا کھانا کھاتے رہے۔ آمنہ کی بچیوں سے کھیلتے رہے۔ دو ڈھائی گھنٹے بعد جب وہ جانے لگے تو میں انہیں چھوڑنے کے لئے باہر تک گیا۔ پھر پوچھا ’’اعجاز صاحب یہ بتائیے آپ کو جانا کہاں ہے۔ اگر آپ کہیں تو میں آپ کو کہیں ڈراپ کردوں‘‘۔ بولے ’’نہیںیہاں سے میرے اور آپ کے راستے جدا ہوجاتے ہیں۔ کوئی تکلیف نہ کیجئے، میں اپنے راستے پر چلاجاؤں گا‘‘۔ اور اس کے ٹھیک ایک مہینے بعد اعجاز صاحب سچ مچ ایک ایسے راستے پر چلے گئے جس پر چل کر آدمی کبھی واپس نہیں ہوتا۔ میرا ماتھا تو اسی وقت ٹھنکا تھا جب اعجاز صاحب نے ڈھائی گھنٹوں کی ملاقات میں ایک بار بھی اپنی خرابی صحت کا ذکر نہیں کیا تھا۔ میں اسی وقت تاڑ گیا تھا کہ اعجاز صاحب کی بیماری اب لفظوں سے آگے نکل گئی ہے جبھی تو وہ اس باب میں چپ سے ہیں۔ اور یوں اردو صحافت ایک وضعدار ایڈیٹر سے اور اردو زبان اپنے ایک مجاہد سے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے محروم ہوگئی۔
(اگست 1978ئ)