اس روہنگی شخص نے اپنے والدین کو کاندھے پر لادھ کر سات روز تک پیدل مسافت طئے کی

اس نوجوان روہنگی نے والدین کے احترام اور اہمیت کی ایک شاندار مثال پیش کی ہے۔راکھین میں روہنگی مسلمانوں پر جاری تشدد سے بچتے ہوئے اس نوجوان نے اپنے مثالی اقدام میں ظعیف والدین کو دوہرے باسکٹ میں بیٹھانے کے بعد اپنے کاندھوں پر لاد کر سات روز تک پیدل مسافت طئے۔

ڈیلی صباء کی خبر ہے کہ مذکورہ شخص نے کہاکہ وہ اپنے ظعیف ماں باپ کو اکیلا چھوڑ کر نہیں آسکتا تھا ‘اس کا ضمیر اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ وہ اپنے والدین کو مشکل حالات میں چھوڑ کر اپنی جان بچاکر وہاں سے بھاگ کر اجاؤں‘ اور میں نے فیصلہ کیا دونوں کو اپنے کاندھے پر لاد کر بنگلہ دیش کی سرحد تک پہنچ جاؤں۔ایک ایسی عمر جب لوگ اسکول یا کام کرتے ہیں‘ اس شخص کے پاس دوسروں کی طرح بہت مشکلات درپیش ہیں۔

انسانی بحران کی عکاسی کرتے ہوئی دل کو چھولینے والی یہ تصوئیرسوشیل میڈیا پر وائیر ل ہورہی ہے۔ ایسے حالات میں جہاں رشتہ ناطے ٹوٹ رہے ہیں ‘ دم توڑتی انسانیت کا ماحول فروغ پارہا ہے‘ یہ تصوئیر کئی کہانیاں بیان کررہی ہے۔ ایسے تصوئیروں میں ایک تصوئیر وہ بھی ہے جس میں خالصہ ایڈ کے ایک والینٹر سردارجی معصوم روہنگی پناہ گزین کو پانی پلارہے ہیں۔

پچھلی اتوار کے روز خالصہ ایڈ کے والینٹرس ٹیکنا ف پہنچے ‘ جو بنگلہ دیش کی سرحد پر واقع ہے‘ جہاں پر پناہ گزین کیمپ قائم کیاگیا ہے۔

ان والینٹرس نے روہنگی پناہ گزینوں کے لئے لنگر قائم کیا اور ان لوگوں کو کھانا او رپانی فراہم کرنے کے اقدامات کئے جوشدید بربریت کاشکار ہوئے ہیں ۔

نسل کشی کی کوششوں میں جان بچاکر بھاگ کر بنگلہ دیش کے سرحد پار کرنے کی کوشش کررہے مظلوم اور بے بس روہنگیوں جنگل اور میدان بھرا پڑا ہے۔ میانمار کے سکیورٹی فورسس اور بدھسٹ ہجوم روہنگی مردوں‘ عورتوں اور بچوں کو بے رحمی کے ساتھ قتل کررہے ہیں۔ وہ گھر لوٹ کر گاؤں بھی ندر آتش کررہے ہیں۔

روہنگیوں کے خراج کی شروعات اگست25سے شروع ہوئی‘ جب سے 370000روہنگی ویسٹرن میانمار کی ریاست راکھین سے بنگلہ دیش کوچ کرنے پر مجبور ہوگئے‘ اقوام متحدہ کے مطابق روہنگی کو اقوام متحدہ نے دنیا کی سب سے زیادہ تشدد کا شکار قوم قراردیتے ہوئے کہاکہ ہے انہیں بڑی پیمانے پر تشدد ‘ حملوں کا سامنا کرنا پڑرہا ہے اور درجنوں لوگ سال2012کے فرقہ وارانہ فسادات میں مارے گئے ہیں۔