اسمبلی انتخابات میں تلگودیشم کو نقصان پہونچانے ٹی آر ایس کی سازش

ہمنوا مقامی جماعت بھی سرگرم ، گوشہ محل سے نریندر کے بیٹے کو امیدوار بنانے کی کوشش
حیدرآباد /12 اکٹوبر ( سیاست نیوز ) ریاست تلنگانہ کے اسمبلی انتخابات میں مقابلہ سہ رخی ہو یا نہ ہو لیکن مفادات البتہ سہ رخی دکھائی دے رہے ہیں ۔ مرکز کے اشارے پر تلگودیشم کو نقصان پہونچانے کے لئے ٹی آر ایس کام کر رہی ہے تو وہیں ٹی آر ایس کو خوش کرنے کیلئے اس کی ہمنوا جماعت سرگرم ہوگئی ہے ۔ سیاسی سازشوں کو ناکام بنانے اور منہ توڑ جواب دینے کیلئے چندرا بابو نائیڈو کے سپوت این لوکیش میدان میں اتر گئے ہیں ۔ تلگودیشم کے نوجوان لیڈر این لوکیش نے کہا کہ بی جے پی کی حلیف ٹی آر ایس کو ناکام بنانا تلنگانہ کے ہر شہری کی ذمہ داری ہے ۔ بی جے پی کو تلگودیشم کی اولین دشمن قرار دیتے ہوئے اس کی مدد کرنے والی ٹی آر ایس کو ناکام بنانا بی جے پی کو ناکام بنانے کے برابر ہے ۔ تو وہیں ان کے اثر کو کم کرنے کیلئے جماعت اپنے سیاسی داؤ استعمال کر رہی ہے ۔تاکہ ٹی آر ایس کے ذریعہ مرکز اور مرکز کے ذریعہ ٹی آر ایس میں اثر دیکھا جاسکے اور اپنے مفادات کو حاصل کرسکیں ۔ اس مرتبہ جماعت کیلئے گوشہ محل حلقہ اسمبلی پلیٹ فارم نام ثابت ہو رہا ہے ۔ باوثوق ذرائع کے مطابق گوشہ محل حلقہ اسمبلی سے بی جے پی کے امیدوار کے طور پر اے نریندر کے بیٹے کا نام گشت کر رہا ہے ۔ بی جے پی سے مستعفی راجہ سنگھ کی گھر واپسی کے بعد اس امیدوار کے نام کو حیدرآباد پارلیمنٹ کیلئے پیش کیا جائے گا تو دوسری طرف تلگودیشم اور کانگریس کے اتحاد سے پریشان ٹی آر ایس کے ساتھ ساتھ مقامی جماعت بھی نہیں چاہتی کہ شہر کے حلقوں سے تلگودیشم کے امیدوار کامیاب ہوں ۔ چونکہ ان دونوں عوامی مفادات کیلئے ڈٹ کر مقابلہ کرنے اور مذہبی معاملات میں مداخلت کے مخالف چندرا بابو نائیڈو نے دونوں ریاستوں میں عوام کا دل جیت لیا ہے اور اب ان کے خلاف زیر افشانی اور ان کی مخالفت جماعت کیلئے بھی پریشانی کا باعث بن سکتی ہے ۔ سیاسی مبصرین کا ماننا ہے کہ ٹی آر ایس کیلئے پردہ کے پیچھے کا اتحاد نقصان اور تباہی کا باعث بنے گا ۔ اس انتخابات میں سیاسی پارٹیوں کو اپنی کامیابی سے زیادہ حلیفوں کے مفادات اور ان کی کامیابی بہت زیادہ ہمیت کی حامل ہوگئی ہے ۔ سابق میں مرحوم امان اللہ خان نے نریندرا کو شکست دیکر پرانے شہر سے اس کا صفایا کردیا تھا تو اب جماعت دوبارہ اس کے وجود کو قائم کرنے کیلئے اس کے بیٹے کی درپردہ حمایت کر رہی ہے اور گوشہ محل حلقہ سے اس امیدوار کے میدان میں لانے کی کوشش کی جارہی ہے اور بی جے پی سے مستعفی سابق رکن اسمبلی راجہ سنگھ کی گھر واپسی کرواتے ہوئے انہیں حیدرآباد پارلیمنٹ کیلئے امیدوار بنایا جائے گا ۔ ان حالات کے پس منظر میں اس کوشش کو جماعت کا متبادل منصوبہ سمجھا جارہا ہے جو ہر طرح سے ماحول کو گرماکر خوف کا ماحول پیدا کرنا چاہتی ہے ۔ جماعت کی کٹر حامی اور بی جے پی کی حلیف پارٹی کے ارادے اور تیور بھی پارلیمانی انتخابات میں بدلنے والے ہیں چونکہ پارلیمانی حلقوں میں اقلیتی رائے دہندے وہ اثر نہیں رکھتے جو اسمبلی حلقوں میں رکھتے ہیں اور مرکز کی ہمنوا و حلیف دونوں جماعتوں کیلئے تلگودیشم پارٹی آنکھ کا کانٹا بنی ہوئی ہے ۔ جس کی عوامی مقبولیت اور اثر کو ریاست آندھراپردیش ہی نہیں بلکہ تلنگانہ میں روکنا بھی فی الحال ممکن دکھائی نہیں دیتا ۔ پارلیمانی انتخابات میں اپنے منصوبوں و سازشوں پر عمل آوری کیلئے یہ ہمنواہ اور حلیف جماعتیں تلگودیشم ہی کو بڑی رکاوٹ تصور کرتے ہیں جو بی جے پی کو ہرانے کے سنگل پوائنٹ فامورلے کے ذریعہ میدان سیاست میں مقابلہ کر رہی ہے اور جنوبی ہند میں فرقہ پرستوں کا صفایا اس کی اولین ترجیحات میں سے ہے ۔