اردو اور ادبِ عالیہ

اختر علی خاں اختر چھتاروی
اردو زبان کی ارتقائی تاریخ پر نظر رکھنے والے صاحبان نظر اس حقیقت سے بخوبی واقف ہیں کہ اس زبان کا دامن کتنا وسیع اور اس کی طبع میں کس قدر لوچ ہے ۔ اردو زبان کی اسی انفرادیت کا یہ کمال ہے کہ اس زبان نے اپنی ہم جنس اور ہم رسم الخط زبانوں کے لفظیات اس حسن و خوبی سے اپنے اندر جذب کرلئے ہیں کہ یہ گمان بھی نہیں گزرتا کہ یہ لفظیات خارجی ہیں یا ان کی زبردستی پیوند کاری کی گئی ہے ۔ جن زبانوں میں یہ خصوصیات ہوتی ہیں وہ زبانیں زیادہ دیر علاقائی نہیں رہ سکتی ہیں اور نہ ان کے ارتقائی عمل میں امتداد زمانہ سدراہ بن سکتا ہے ۔ جس دور میں ہم اور آپ جی رہے ہیں ہم اس دلپذیر حقیقت کے عینی شاہد ہیں کہ ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے اردو ایک بین الاقوامی زبان ہوچکی ہے ۔ اور جب کسی زبان کو بین الاقوامی ہونے کا شرف حاصل ہوجاتا ہے تو اس زبان کی شانہ آرائی اور تزئین اہل زبان پر ایک اہم اخلاقی ذمہ داری کی حیثیت سے عائد ہوجاتی ہے ۔ اردو زبان کی یہ خوش بختی ہے کہ یہ عربی اور فارسی سے ، رسم الخط ، تراکیب الفاظ ، بحور و اوزان اور مذہبی ، معاشرتی اور سماجی میلان رکھتی ہے ،بلکہ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ عربی ، فارسی اور اردو مسلمانوں کی مذہبی ، ملکی اور قومی زبانوں کی ’’اقانیم ثلاثہ‘‘ تصور کی جاتی ہیں اور ان تینوں زبانوں کا آپس میں چولی دامن کا ساتھ ہے ۔

ہماری موجودہ نسل کی دماغی اور عقلی ترقی کے ساتھ ساتھ اخلاقی تکمیل کے لئے انسانی احساسات ، خیالات ، اختراعات کی ایک مسلسل تاریخ ہمارے سامنے ہے جس میں اردو زبان کے طبقہ اعلی کی مایہ ناز ادبی اور شعری تصانیف کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ وہ سب کا سب ادب الاساتذہ کے بلند خیالات کا ایک ایسا بہترین مرقع ہے ،جس پر ہر زندہ ادبی زبان کے اہل زبان فخر سے اپنی گردن اونچی رکھ سکتے ہیں ۔ ہم اس حقیقت سے روکشی نہیں کرسکتے ہیں کہ اردو ادب عالیہ کا اطلاق صرف انہیں حکمائے اردو ادب کی دماغی کاوشوں کے نتائج پر ہے اور ماضی قریب میں اسی ادب عالیہ نے اردو کو اردوئے معلی کا خلعت پہنایا تھا ۔ درحقیقت اردو زبان کے فروغ ، اسکی تزئین اور شانہ آرائی کی ماضی میں بھی یہی قدرتی تدبیر تھی اور آج کے اس کم سواد دور میں بھی جبکہ علم و ادب کا معیار ، تیزی سے روبہ تنزل ہے ، یہی تدبیر ہے کہ اس زبان میں معیاری ادب صالح اور ادب عالیہ کی مسلسل تخلیق ہوتی رہے تاکہ اس زبان کا ادبی سرمایہ دیگر ترقی یافتہ ہم جنس زبانوں سے زمانہ بہ زمانہ ہم آہنگ رہے ۔

گزشتہ زمانہ میں فارسی زبان مسلمان حکمرانوں کے گھر کی کنیز تھی ، جس سے برصغیر کے ادباء و شعراء نے بھرپور استفادہ کیا اور نتیجتاً یہ ہوا کہ اردو زبان میں تمام اساسی مضامین کا مواد فارسی سے ہی در آیا  ۔چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ صرف و نحو ، صنائع و بدائع ، بحور و اوزان ، ردیف و قافیہ  ،تشبیہ و استعارہ کے قواعد ہر اعتبار سے فارسی زبان سے اپنائے گئے بلکہ اگر ہم بغور مطالعہ کریں تو منکشف ہوگا کہ اردو ادب فارسی ادب کا وجودِ ظلی ہے اور جب حقیقت حال یہ ہوتو فی زمانہ اردوداں طبقے کی فارسی زبان سے بے اعتنائی کو اگر لاابالی پن اور تن آسانی نہ کہا جائے تو کیا نام دیا جائے ۔ فی زمانہ اردو زبان جس زبوں حالی کا شکار ہے اور اس ضمن میں اردو داں طبقے کی لاپروائی کی بنیادی وجہ دراصل ہمارے مجموعی رویوں میں ترجیحات کی تبدیلی ہے ۔ ہمارے رویوں میں ترجیحات کی تبدیلی کی بنیادی وجہ جو بھی ہو لیکن یہ خوش آیند نہیں ہے اور موجودہ صورتحال اردو کے لئے بے حد ضرر رساں ہے ۔ دنیا کی مختلف زبانوں کی تاریخ دیکھئے تو معلوم ہوتا ہے کہ زبانوں کی حالت بعینہ جانداروں کی سی ہے کہ وہ پیدا ہوتی ہیں ، بڑھتی ہے جوان ہوتی ہیں ، ان سے نسل چلتی ہے ، بوڑھی ہوتی ہیں اور مرجاتی ہیں ۔ مردہ زبان وہ کہلاتی ہے جس کے بولنے والے دنیا میں باقی نہ رہے ہوں اور ان کی نشانی صرف پرانی کتابوں میں باقی رہ گئی ہو جیسے عبرانی ، سنسکرت ، لاطینی وغیرہ ۔ بعض زبانیں ایسی بھی ہیں کہ وہ اس طرح مٹی ہیں کہ ان کا نشان کتابوں سے بھی قریب قریب محو ہوچکا ہے جیسے فینیقی اور قبطی وغیرہ ۔ برعکس اس کے زندہ زبان وہ کہلاتی ہے جس کے بولنے والے موجود ہوں اور اس میں ادب عالیہ کی تصنیف و تالیف کا سلسلہ برابر جاری ہو جیسے اردو کی ہم جنس زبان عربی ہے کہ نہ صرف عرب ممالک میں بلکہ تمام اسلامی ممالک میں جہاں عربی نہ بھی بولی جاتی ہو وہاں بھی عربی میں مسلسل تحقیق و تصحیح اور تصنیف وتالیف کا کام جاری ہے ، اگرچہ یہ سب کام قرآن مجید ، کتب احادیث اور دیگر اسلامی علوم کا مرہون منت ہے ، لیکن اس کا فائدہ براہ راست عربی زبان کو پہنچ رہا ہے ۔ اسی طرح فارسی زبان کے حوالے سے ایران میں بھی یہی کام ہورہا ہے ، اور اس پیمانے پر ہورہا ہے کہ فارسی ادب عالیہ سے متعلق اساتذہ کی وہ نگارشات بھی جن کا تعلق براہ راست ایران سے نہیں ، ان پر بھی تحقیق و تصحیح و طباعت کا کام اسی دلجمعی سے کیا جارہا ہے ، جس دلجمعی سے ایرانی اساتذہ کی نگارشات کے لئے کیا جاتا ہے ۔ چنانچہ ترکی ، ہندوستان اور پاکستان میں اساتذہ کی وہ فارسی زبان کی نگارشات جو بوجوہ ماضی میں زیور طباعت سے آراستہ ہو کر منصہ شہود پر نہ آسکیں ، انہیں حاصل کرکے ان پر کام ہورہا ہے ۔ اس ضمن میں یہ بات بہت خوش آیند ہے کہ ایران میں اب تحقیق و تصحیح اور طباعت کا معیار مغربی ممالک کے معیار کا ہم پلہ ہے یعنی اول ٹالنے والی بات ہرگز نہیں ہے ، جو فی زمانہ ہندوستان اور پاکستان سے شائع ہونے والی کتب میں ہم اکثر دیکھتے ہیں ۔ لیکن منہاج ادب عالیہ پر جو کام عربی اور فارسی میں جاری ہے ، وہ اردو میں اس پیمانے اور معیار پر نہیں ہورہا ہے ۔
اس دور کم سوادی میں تخلیقی ادب کے نام پر اردو زبان کے ساتھ جو سلوک کیا جارہا ہے اس کا ایک بھیانک رخ چند حواس باختہ ارباب قلم کی سہل انگاری ہے ، جس کے نتیجے میں  اردو کو ادب عالیہ سے بے تعلق کرکے اسے بیچ منجدھار میں چھوڑ دیا گیا ہے ، کیونکہ  ان تن آسان اردو زبان کے ٹھیکے داروں کی نظر میں اردو ادب عالیہ ایک تو بہت ادق ہے اور دوسرے اس کا اردو کے موجودہ زمینی حقائق سے اب کوئی تعلق نہیں رہا ہے ۔ یہ موجودہ زمینی حقائق کیا ہیں ؟ سوائے مایۂ علم و فن کی مفلوک الحالی کے اور کچھ نہیں ۔ سو آج کل اردو شعر و ادب میں دھڑے بندیوں اور انجمن ہائے تحسینِ باہمی کے غوغائے سمع خراش نے اچھا خاصا اودھم مچارکھا ہے ۔ برصغیر میں کوئی ہفتہ شاید خالی جاتا ہو کہ دیدہ زیب جلدوں اور رنگین گرد پوشوں میں لپٹی ، قافیہ پیمائیوں اور تک بندیوں سے لیس زبان و بیان کی اغلاط سے لبریز ، مضامین سے تہی اور زمین و آسمان کے قلابے ملائی ہوئی ناسزا تعریفی تقریضوں اور تبصروں سے آراستہ ایسی ایسی شعری مجموعوں کی دلہنیں نام نہاد ’’رونمائی‘‘ کے لئے لائی جاتی ہیں کہ جن کی ہیئت رونمائی پر تو کیا غایت طباعت پر سردھننے کو جی چاہتا ہے اور فاضل تقریظ نگاروں اور مبصروں کی کم نگاہی اور بے دیانتی و چشم پوشی پر کرب ناک افسردگی ہوتی ہے ۔ لیکن اس سے بھی زیادہ افسوسناک سانحہ یہ ہے کہ اس کم سوادی اور سہل انگاری کے دھماّلی ہلڑ میں ثقہ ادباء اور شعراء نے گوشہ نشینی اختیار کررکھی ہے اور کوئی روکنے اور ٹوکنے والا میسر نہیں ہے ۔ اردوئے معلی کا ایک زمانہ وہ بھی تھا جب غالب نے یہ شعر کہہ کر دلی اور لکھنؤ کے اردو دانوں کو چونکادیا تھا:

گنجینہ معنی کا طلسم اس کو سمجھیے
جو لفظ کہ غالب مرے اشعار میں آوے
اور مرزا غالب کے کلام کی شرحیں لکھی جانے لگیں اور آج تک لکھی جارہی ہیں ۔ بلکہ ثقہ اہل شعر و ادب میں آج بھی ایسے لوگ ہیں جو اپنی غالب شناسی پر فخر کرتے ہیں ۔ان کے نزدیک اردو زبان کے زمینی حقائق یہی ہیں کہ اسے ادب الاساتذہ سے ہم آہنگ رکھا جائے اسی میں اس زبان کہ پایندگی اور زندگی کا راز مضمر ہے ۔
موجودہ دور ، انٹرنیٹ کا دور ہے اور انٹرنیٹ پر اردو زبان کے ضمن میں یکے بعد دیگرے جو سہولتیں مہیا ہورہی ہیں ان کا تقاضہ تو یہی ہے کہ ہم دل و جان سے اردو زبان کی خدمت کے لئے مستعد ہوجائیں ۔ آج کل انٹرنیٹ پر ان گنت ویب سائٹس ایسی ہیں جن پر عربی ، فارسی اور اردو ادب عالیہ کی نادر الوجود کتب کے انبار ڈاؤن لوڈ کرنے کے لئے دست بستہ ہمہ وقت ہمارے منتظر ہیں ۔
ہماری موجودہ نسل کو یہ ایک ایسا سنہرا دور میسر ہوا ہے کہ ہماری گزشتہ نسلیں ایسا خواب بھی نہیں دیکھ سکتی تھیں ۔ہمیں اس سے فائدہ اٹھانے میں تاخیر نہیں کرنی چاہئے اور اردو ادب عالیہ کے مطالعے سے خود کو آراستہ کرلینا چاہئے تاکہ اپنی زبان کی قولاً ہی نہیں عملاً بھی خدمت کرسکیں ۔ اردو مخالف عناصر کی پراثر مدافعت اور اردو زبان کی شانہ آرائی کا یہی بہترین موقع اور طریقہ کار ہے ۔