احتیاطی تدابیر کے طور پر سکیٹر 58میں نماز پڑھانے والے عالم دین کی گرفتاری۔

عالم دین کاکہنا ہے کہ پچھلے پانچ سالوں میں لا تعداد لوگ پارک میں نماز ادا کررہے ہیں‘ اور اس کی وجہہ سے ہوسکتا ہے پولیس نے علاقے کی خانگی کمپنیوں کو آرڈرس جاری کئے ہیں‘ اور ان سے کہاہے کہ وہ لوگ اپنے ملازمین کو پارک میں ادا کی جانے والی نماز کو جانے سے روکیں۔

نوائیڈا۔سکیٹر 58 کے پارک میں پچھلے پانچ سالوں سے امامت کرنے والے عالم دین بھی ان لوگوں نے شامل ہیں جنھیں احتیاطی تدابیر کے طور پر 18ڈسمبر کے روز پولیس نے اپنی تحویل میں لے لیاتھا۔

سی آر پی سی سیکشن 151کے تحت عالم دین اور سماجی کارکن عادل رشید کو حراست میں لیاگیاتھا‘جنھیں تین دن بعد عدالت نے رہا کردیا۔

عالم دین مولانا نومان اختر نے انڈین ایکسپریس سے بات کرتے ہوئے کہاکہ پچھلے پانچ سالوں میں لا تعداد لوگ پارک میں نماز ادا کررہے ہیں‘ اور اس کی وجہہ سے ہوسکتا ہے پولیس نے علاقے کی خانگی کمپنیوں کو آرڈرس جاری کئے ہیں‘ اور ان سے کہاہے کہ وہ لوگ اپنے ملازمین کو پارک میں ادا کی جانے والی نماز کو جانے سے روکیں۔

مولانا نے کہاکہ ’’ میں2013سے امامت کررہاہوں ۔ سو سے دو سو لوگ آتے تھے ۔ مگر بیان کی وجہہ سے لوگوں کی تعداد میں اضافہ ہونے لگا۔ایسا وقت بھی آگیا کہ ایک ہزار لوگ بھی آسکتے ہیں‘ مگر یہ سب پرامن ماحول میں انجام دیاجارہا تھا‘‘۔

ڈسمبر14کے روز پولیس نے مولانا نے سے کہاکہ وہ اس بات کا اعلان کریں کہ یہا ں پر کوئی نماز نہیں ہوگی۔

انہوں نے کہاکہ ’’ اس روز دوہزار کے قریب لوگ وہاں پر تھے ‘ پولیس نے نوائیڈا انتظامیہ کی جانب سے عدم اجازت کا حوالہ دیا‘ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ہم نے اس سے قبل انہیں تحریر میں لکھ کر دیا ہے۔ لہذا ہم نے کہاکہ جب تک اجازت نہیں مل جاتی کسی کو بھی نماز ادا کرنے کی منظوری نہیں ملے گی‘‘۔

درایں اثنا ء چہارشنبہ کے روز ایک ویڈیو منظرعام پر آیاجس میں ایک شخص رشید اور مولانا اختر کے ساتھ بدسلوکی کررہاہے اور ان سے نماز کی ادائی کے لئے اجازت نامہ طلب کررہا ہے۔

رشید نے کہاکہ ’’ کچھ دن قبل 14ڈسمبر کے روزایک شخص ہمارے پاس آیا اور اپنے موبائیل سے ریکارڈنگ شروع کردی جبکہ ہم نمازا دا کرنے کے بعد پارک میں بیٹھے تھے۔ وہاں پر ہم تین چار لوگ ہی تھے۔ اس کا سوالات پوچھنے کا انداز نہایت خراب اور مشکل پیدا کرنے والا تھا‘‘۔

جب سیکٹر 58کے ایس ایچ او پنکج راج سے رابطہ کیاگیا تو انہوں پولیس کی کاروائی او رمبینہ ویڈیو کے درمیان لنک سے انکار کردیا۔

انہوں نے کہاکہ ’’ ہمیں ویڈیو کے متعلق کوئی جانکاری نہیں ملی ہے۔ بشنپور جیسے علاقے کے رہائشی لوگوں کی جانب سے کی گئی شکایت کے بنیاد پر ہی ہم نے کاروائی کی ہے۔

ہمیں اس حقیقت کا ذکر کرنے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں ہے کہ انتظامیہ کی جانب سے انہیں نمازا دا کرنے کی اجازت نہیں ملی ہے‘‘۔علاقے کی کئی کمپنیوں کے ملازمین نمازکی ادائی کے لئے یہاں پر آتے ہیں۔ پارک کی جانب سے نمازکے لئے جائے نماز اور وضو کے لئے پانی کا انتظام بھی کیاجاتا ہے۔

عطیہ باکس کے ذریعہ پیسے بھی جمع کئے جاتے ہیں۔سیکٹر58کے ایک ادارے میں کام کرنے والے مرتضیٰ لال نے کہاکہ ’’ہمارے لئے پارک میں نمازا دا کرنے میں کافی سہولت ہے کیونکہ کام کے اوقات میں ہم مسجد نہیں جاسکتے ہیں‘‘