اتنی بڑی آفت کے بعد بھی …

تلنگانہ / اے پی ڈائری          خیر اللہ بیگ
اتنی بڑی آفت اور اتنے زیادہ نقصان کے بعد بھی اگر تلنگانہ حکومت مرکز کی نوٹ بندی کی حمایت کررہی ہے تو یہ ایک مطلب براری کی مجبوری ہے ۔ ریاستی اسمبلی سیشن میں ارکان نے نوٹ بندی کے اثر سے آزاد ہو کر خود کو ریاستی معیشت کا حصہ ہونے کا ثبوت نہیں دیا کیوں کہ سرکاری بنچوں اور اپوزیشن کے درمیان جو کچھ توتو میں میں ہوئی وہ عوامی مسائل پر محیط نہیں تھی صرف ذاتی اور شخصی امور پر دلچسپی دکھائی گئی ۔ کانگریس نے بطور اپوزیشن حکمراں پارٹی ٹی آر ایس کو اس کے وعدوں کی جانب توجہ دلائی ۔ کمزور طبقات کے لیے امکنہ پروگرام کے ساتھ ساتھ ڈبل بیڈ روم مکانات کا وعدہ ادھورا ہے ۔ گذشتہ ڈھائی سال کی حکمرانی کے دوران صرف 1200 ڈبل بیڈ روم کے مکانات تعمیر کیے گئے جب کہ حکومت نے 2.6 لاکھ مکانات تعمیر کرنے کا وعدہ کیا تھا ۔ حکمران پارٹی کے پاس بھی کانگریس کے وار کا جواب تھا اور ٹی آر ایس ارکان نے کانگریس دور حکومت کی بدعنوانیوں کا حوالہ دیا خاص کر راجیو سوگرہا اور راجیو گروہا کلپا کے نام پر بڑے پیمانہ پر رشوت خوری کی گئی تھی ۔ ان دونوں پارٹیوں نے ایک دوسرے کی عزت نکالتے ہوئے عزت کے لیے سیاست کا اپنا طرز عمل اختیار کرلیا ۔ حکومت اور اس گلے سڑے نظام کی کارگذاری کا بھرم ہر روز عوام الناس کے سامنے کھل رہا ہے ۔ عوام دیکھ رہے ہیں کہ ٹی آر ایس کی طرز حکمرانی پر اگر بادشاہت نہیں تو خاندانی حکمرانی کا رنگ غالب ہے ۔ اپنے لیے شاندار محل نما گھر بناکر اسے ریاست کی ملکیت قرار دیا گیا ۔ کانگریس رکن اسمبلی کومٹ ریڈی وینکٹ نے ریمارک کیا کہ چیف منسٹر کے نئے کیمپ آفس میں 150 کمرے ہیں ۔ اس عمارت کو ایک ریکارڈ وقت میں تعمیر کروایا گیا جب کہ غریبوں کے مکانات ڈھائی سال سے صرف نقشہ کی ہی زینت بنے ہوئے ہیں ۔ اس طرح کی بحث اور ریمارکس سے غریبوں کے لیے مکانات بنانے میں مدد ملتی ہے تو یہ ایک طرح سے فائدہ ہی ہوگا مگر نوٹ بندی میں یعنی تلنگانہ حکومت کے لیے ڈبل بیڈ رومس کی تعمیر کا وعدہ گلے میں اٹکی ہڈی بن رہا ہے ۔ تلنگانہ تحریک کے روح رواں ٹی جے اے سی کے چیرمین پروفیسر کودنڈا رام نے بھی کانگریس کے ساتھ ساتھ حکومت کے خلاف محاذ کھول دیا ہے ۔ انتخابی وعدوں کی تکمیل کی جانب توجہ دلانے کے باوجود اب تک انہیں بھی کوئی کامیابی نہیں ملی ہے ۔

پروفیسر کودنڈا رام عوام کے مسائل اٹھا رہے ہیں اور ان کے خیال میں وہ دن دور نہیں جب عوام ٹی آر ایس کو سبق سکھائیں گے لیکن ان جیسے قدآور شخصیتوں کے سامنے چند بونے قسم کے لوگ بھی حکومت کی سرپرستی حاصل ہوتی ہے تو آوازیں نکالنے لگتے ہیں ۔ تحریک تلنگانہ میں سرگرم حصہ لینے والے ایک رکن جو ٹی آر ایس ایم پی بن چکے ہیں ۔ بی سمن نامی ایم پی نے کودنڈا رام پر زور دیا کہ وہ اپنی زبان پر قابو پالیں ۔ چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ کے خلاف ان کی زبان قینچی کی طرح چل رہی ہے تو یہ پروفیسر کے لیے ٹھیک نہیں ہوگا ۔ پداپلی کے ایم پی نے کودنڈا رام کو کانگریس کا ایجنٹ بھی قرار دیا ۔ ٹی آر ایس حکومت کی ہر پالیسی کو تنقید کی نگاہ سے نہیں بلکہ تعریف کی قدر سے دیکھنے کا مشورہ دینے والے یہ ٹی آر ایس ارکان پارلیمنٹ یہ بھول چکے ہیں کہ عوام کی حمایت کا رخ جب پلٹ جاتا ہے تو کودنڈا رام جیسے لوگ ہی یاد آتے ہیں ۔ ایوان اسمبلی میں بطور اپوزیشن کانگریس نے اپنے وجود کا احساس تو دلایا ہے جب کہ دیگر پارٹیاں خاص کر مسلم قیادت اور ہندو قیادت کا دعویٰ کرنے والی پارٹیاں حکمراں قیادت کے آگے دست بستہ کھڑی دکھائی دیں ۔ عوام نے اندازہ کیا کہ بی جے پی ارکان کو تلنگانہ اسمبلی کے سرمائی سیشن میں بہت ہی نازک صورتحال سے گذرنا پڑا ۔ اگرچیکہ بی جے پی کے صرف پانچ ارکان اسمبلی ہیں لیکن یہ ارکان حکومت کی ناکامیوں کو آشکار کرنے میں ناکام رہے ۔ اور یہ ارکان عوام کے مسائل کو اٹھا کر حکومت پر دباؤ ڈالنے سے بھی قاصر رہے ۔ ایوان کے اندر ان کا موقف دیدنی تھا کیوں کہ یہ ارکان خود کو ایسی صورتحال سے دوچار ہورہے تھے کہ یہ اپوزیشن میں ہیں یا حکمراں ٹی آر ایس کی دوست پارٹی ہیں ۔ ایک اور پارٹی نے مسلم قیادت کا دعویٰ کرتے ہوئے حکمراں جماعت سے دوست جماعت کا رویہ رکھا۔ بی جے پی کے لوگ بظاہر 2019 کے انتخابات میں ٹی آر ایس کا صفایا کرنے کا دعویٰ کررہے ہیں جب کہ ایوان اسمبلی میں حکمراں پارٹی کے ارکان کے سامنے بھیگی بلی بنے بیٹھے ہیں ۔ اس طرح یہ پارٹیاں اپنے رائے دہندوں کو کوئی مثبت اشارے دینے سے ناکام رہیں ۔ اسمبلی سیشن سے قبل کشن ریڈی نے دعویٰ کیا تھا کہ ان کی پارٹی کم از کم 23 مسائل کو اٹھا کر حکومت کو بے بس کردے گی ۔

بی جے پی نے اسپیکر کو فہرست بھی پیش کی تھی اور کہا کہ اسے ایوان میں مباحث کے لیے وقت دیا جائے لیکن بی جے پی ارکان کسی بھی مسئلہ پر حکومت کو کنارے پر نہیں لا سکے بلکہ بی جے پی کے ارکان نے حکومت کی زبردست ستائش کی خاص کر گینگسٹر نعیم کے انکاونٹر اور مشن بھاگیرتا پر حکومت کی تعریف کی گئی ۔ ایوان میں بی جے پی اور مجلس کا موافق حکمراں رول دیکھ کر اندازہ ہوجاتا ہے کہ تلنگانہ میں ٹی آر ایس کے خلاف کوئی طاقت مضبوطی سے قائم نہیں ہے۔ کانگریس اور تلگو دیشم کو اپنے ارکان کی انحراف پسند پالیسی سے پریشانی لاحق ہے اسی لیے یہ پارٹیاں بھی بہت محتاط طور پر حکمراں پارٹی کے خلاف آواز اٹھا رہی ہیں ۔ ریاست تلنگانہ ہو یا مرکز میں برسر اقتدار حکمراں پارٹی کا موقف یکساں ہے ۔ اپوزیشن کے بغیر یہ پارٹیاں بے لگام ہو کر کام کررہی ہیں ۔ اگر کسی معقول فرد سے پوچھا جائے کہ تلنگانہ یا ملک کو اس وقت سب سے زیادہ ضرورت کس چیز کی ہے تو ایک ہی جواب ملے گا کہ نوٹ بندی سے فوری راحت ۔ اس پر دورائے ہو ہی نہیں سکتی ۔ نوٹ ہی روزمرہ زندگی کو چلانے کا ذریعہ مانا جارہا ہے تو اس کے بغیر کسی بھی قسم کی ترقی کا کوئی امکان نہیں ہے ۔ مگر غور طلب امر یہ ہے کہ لوگوں نے اس مصیبت پر صبر و تحمل سے رہنے کا ہنر سیکھ لیا ہے بلکہ اب تو لوگوں کو بینکوں کے باہر طویل قطار میں ٹھہرنے کی عادت ہوگئی ہے ۔ بینکرس کی جھڑکیاں سننا ، سیکوریٹی گارڈس کی دھتکار کھا کر بھی لائن میں لگے رہنے کو ترجیح دینے کی عادت ڈال چکے ہیں ۔۔
آج کے حالات اور عوامی صورتحال ماضی میں کسی ریاست کے مہاراجہ کے فیصلوں کے عین مطابق دکھائی دیتے ہیں ۔ ایک ریاست کے مہاراجہ کو اپنی پرجا کے صبر کا امتحان لینے کی حواہش یا شرارت پیدا ہوئی تو انہوں نے اپنے وزیروں کے ذریعہ اعلان کروایا کہ عوام کو اپنی آمدنی کا زائد حصہ لگان کے طور پر دینا ہوگا ۔ عوام الناس کو راجہ کے اس فیصلہ سے کافی پریشانی ہونے لگی پھر بھی یہ لوگ صبر کے ساتھ لگان ادا کرنے لگے راجہ کو حیرانی ہوئی کہ اتنی سختی کے باوجود عوام مشتعل نہیں ہوئے اور نہ ہی کوئی احتجاجی مورچہ نکالا اور ریاست میں امن ہی امن ہے ۔ لہذا راجہ کو ایک اور ترکیب سوجی اس نے اعلان کرایا کہ ہر شہری کو روز صبح کام پر جانے سے پہلے ایک پل سے گذرنا ہوگا جہاں انہیں پہرہ دار جوتا مار کر پل سے گذرنے دے گا ۔

تمام باشندے راجہ کے اس فرمان کی تعمیل کرتے ہوئے روزانہ صبح کام پر جانے کے لیے گھر سے نکل کر پل کے قریب قطار میں لگ جاتے اور جوتے کھا کر کام پر جاتے ۔ کچھ دن گذرنے کے بعد راجہ نے ریاست کی صورتحال کا جائزہ لیا تو عوام کے صبر و تحمل یا بے شرمی کی زندگی گذارنے کے باوجود امن و امان رہنے کی اطلاع ملی ۔ راجہ حیران رہا کہ آخر اس کی رعایا نے اس کے خلاف بغاوت کیوں نہیں کی جوتے کھا کر بھی چپ ہیں ۔ ایک دن صبح جب راجہ نیند سے بیدار ہوا تو اسے خبر پہونچائی گئی کہ محل کے باہر عوام الناس کا ہجوم جمع ہے یہ لوگ راجہ کے پاس کچھ فریاد لے کر آئے ہیں راجہ کو اندازہ ہوگیا کہ اب ضرور لوگ میرے خلاف غم و غصہ کا اظہار کریں گے جوتے کھانے کی رسم ہٹالینے کا مطالبہ کر کے احتجاج کریں گے نعرے بلند ہوں گے ۔ اس خیال کے ساتھ جب راجہ محل سے نکل کر رعایا کے سامنے پہونچا تو لوگوں نے تعظیم بجالائی ۔ راجہ کو یقین ہونے لگا کہ لوگ اب اس کے خلاف نعرے لگائیں گے اور مسئلہ اٹھائیں گے ۔ راجہ نے یہاں آنے کی وجہ دریافت کی تو لوگوں میں سے چند ایک نے ہمت کر کے زبان کھولی اور عرض کیا کہ مہاراج آپ نے کام پر جانے سے پہلے جوتے کھانے کا جو فرمان جاری کیا ہے تو راجہ نے ٹونک کر کہا اور دل ہی دل میں سوچنے لگا کہ اب یہ لوگ جوتے کھانے کے فرمان کو واپس لینے کا مطالبہ کریں گے ۔ راجہ نے پرجا سے گرج دار آواز میں کہا کہ اس فرمان سے آپ کو کوئی اعتراض تو نہیں ۔ لوگوں نے کہا مہاراج ہمیں اعتراض کیسے ہوسکتا ہے بھلا حضور سے صرف اتنی گذارش ہے کہ ہر روز کام پر جانے میں دیر ہورہی ہے کیوں کہ پل سے گذرتے وقت جوتے کھانے کے لیے لوگوں کی بڑی قطار رہتی ہے اور جوتے مارنے والا صرف ایک ہی پہرہ دار ہے ۔ اس سے مائی باپ سے التجا ہے کہ جوتے مارنے والے کی تعداد بڑھائی جائے اور ایک کے بجائے دو جوتے مارنے والوں کا تقرر کیا جائے تاکہ ہم جلدی جلدی جوتے کھا کر اپنے کام پر جاسکیں ۔
kbaig92@gmail.com