اب جبکہ ڈرائیونگ پر امتناع کی برخواستگی قریب ہے سعودی خواتین اپنی موٹر گاڑیاں تیار کرلی ہیں۔

ریاض۔یہا ں تک کہ اس سال قبل بھی اس کا تصور محال تھاکہ سعودی خواتین جینس اور ہارلی ڈیوڈ سنگ کی ٹی شرٹ زیب تن کئے ریاض کے اسپورٹس سرکٹ میں موٹر بائیکس چلانے کی مشق کریں گی۔
مگر 24جون سے عورتوں کی ڈرائیونگ پر عائد امتناع کی برخواستگی کے پیش نظر خواتین بڑے پیمانے پر ایک خانگی موٹر سیکل کی سواری کے ادارے پر جمع ہوکر ‘ موٹر سیکل چلانے میں مہارت حاصل کررہی ہیں۔قدامت پسند اسلامی مملکت میں تنقیدوں سے بچنے کے لئے اپنا نام تبدیل کرتے ہوئے 31سالہ نورا نے بتایا کہ ’’بچپن سے بائیک چلانے کے میرے اندر جنون ہے‘‘۔

صر ف خواتین کی ڈرائیونگ پر امتناع دنیا کے لئے خواتین کے ساتھ تعصب کی ایک مثال بن گئی تھا‘ جس کو ولعیہد سلمان بن محمد کے لائے گئے اصلاحات کے پیش نظر بدلنے کا اقدام اٹھایاگیا۔

مگر حالیہ عرصہ میں امتناع کے خلاف احتجاج کرنے والے سینئر جہدکاروں اور خاتون کارکنوں کی گرفتاری کی وجہہ سے ایک ہیجان انگیز کیفیت بھی پیدا ہوگئی ہے۔خواتین میں سے کوئی بھی اس بحران پر بات کرنے سے گریز کرنا چاہتا ہے۔

نورا جو یاماہا ویرگو پر سوار تھی نے اے ایف پی سے کہاکہ’’ میں گھر کے لوگوں کو بائیک چلاتا دیکھ کر بڑھی ہوئی ہوں‘‘۔سعودی میں پیدا ہوئی اردنی 19سالہ لین تینوی جو سوزوکی کا جائزہ لے رہی تھی نے کہاکہ ’’ اب مجھے امید ہے کہ سڑک پر گاڑی چلانے کے لئے میرے پاس کافی مہارت آگئی ہے‘‘۔

دونوں کے لئے یہ صرف بائیک چلانے کا جنون نہیں ہے مگر یہ ان کے لئے ان کی آزادی کا رحجان بھی ہے۔تینوی نے ’’ بائیک چلانے کے اس پورے تجربے کو ایک لفظ ’’ آزادی ‘‘ میں بیان کرونگی‘‘۔

اب تمہاری باری ہے بائیک چلانے کی‘۔دونوں بائیکرس اپنے یوکرائی انسٹرکٹر 39سالہ ایلینا بوکریوی کو فالو کررہی ہیں جو ہا رلی ڈیوڈ سن کی سواری کرتی ہے۔

مذکورہ سرکٹ میں دن میں زیادہ تر وقت مرد بائیکرس کا ہوتا ہے۔بوکریوی نے اے ایف پی سے کہاکہ مگر بائیک چلانے کی بنیاد پر فبروری میں جب سے کورسس کی پیش کش کی گئی ہے‘ چار خواتین ہی نے اپنے نام درج کرایا ہے‘ جن میں اکثریتی سعودی عورتوں کی ہے۔

انہوں نے کہاکہ ’’ وہ ہمیشہ بائیک چلانے کے متعلق معلومات حاصل کرنا چاہتی ہیں ۔ اب وہ کہہ رہے ہیں یہ قت ہمارا ہے‘‘۔

کورس جس کے لئے پندرہ سو ریال ( 4سو امریکی ڈالر ‘340یورو)کی فیس مقرر کی گئی ہے کے لئے زیادہ عورتوں کے عدم اندراج کے متعلق پوچھنے پر انہوں نے کہاکہ ’’ ہوسکتا ہے ان کے گھر والوں نے انہیں روک دیا ہے‘‘۔

تینوی نے بھی اسی طرح کا بیان دیتے ہوئے کہاکہ وہ اپنے گھر والوں کی جانب سے سخت تحفظات کا سامنا کررہی ہے۔انہوں نے اے ایف پی سے کہاکہ’’ میرے والدین کہتے ہیں کیا تم بائیک پر ہو؟ تم لڑکی ہو ‘ او ریہ خطرناک ہے‘‘۔

سعودی عرب کوقدامت پسند مملکت تصور کیاجاتا ہے جہاں پر خواتین کے حجاب کی پابندیاں ہیں جواسلامی اصولوں کے عین مطابق ہے۔ سعودی عرب میں سخت قوانین بھی ہیں ۔ خواتین کے ساتھ جنسی استحصال ‘ یا چھیڑ چھاڑ کے معاملات میں پانچ سال کی سزا اور تین لاکھ ریال تک جرمانہ عائد کیاجاتا ہے۔