ابھیشار شرما ۔پچھلے ساڑھے چار سالوں میں حکومت پر تنقید کرنے والے ذرائع ابلاغ کی آمدنی میں کمی۔ اُردو اخبارات بھی نشانے پر۔ ویڈیو

جمہوریت میں ذرائع ابلاغ جمہوریت کا چوتھا ستون مانا جاتا ہے اور حکومت پر تنقید‘ عوامی مسائل کو بے باک انداز میں پیش کرنے جمہوری حق او راختیار حاصل ہے ۔ سابق میں بھی بے باکی کے ساتھ حکومتوں کی ناکامیوں کو عوام کے روبرو لانے میں ذرائع ابلاغ کا اہم رول رہا ہے مگر پچھلے چارسالوں میں جس کا ماحول مرکز میں برسراقتدار نریندر مودی حکومت نے بنایا ہے اس میں ایسا لگ رہا ہے کہ ذرائع ابلاغ کی جمہوری آزادی سلب کردی گئی ہے اور ان میڈیا ہاوز کو حکومت کی مرعات مل رہی ہے جو یاتو وزیراعظم مودی کے گن گان کررہے ہیں اور حکومت کے ہر فیصلے اور اقدام کے ساتھ کھڑے ‘ جبکہ مخالفت کرنے والے میڈیا ہاوز کو نت نئے انداز میں ہراساں وپریشان کیاجارہا ہے

۔حالانکہ جمہوری ملک کے ذرائع ابلاغ کا عرصہ حیات تنگ کرنے کی کوششیں یقیناًغیر جمہوری ہیں مگر پچھلے ساڑھے چار سالوں میں پیش ائے کاروائیاں بالخصوص میڈیا ہاوز کے ساتھ حکومتوں کا رویہ ایسا لگ رہا ہے کہ ’’ہماری حمایت کرو تو مرعات ملے گی‘ ورنہ تمہارے اخبارات‘ ٹیلی ویثرن چیانل بند کردئے جائیں گے‘‘۔

جہاں تک پرنٹ میڈیا کی بات کریں تو عام طور پر ایک اندازے کے مطابق اخباریومیہ اشاعت پر فی اخبار 16تا17روپئے کا خرچ آتا ہے ‘ مگر اشاعت کے بعد مذکورہ اخبار چار تا پانچ روپئے میں فروخت کیاجاتا ہے جبکہ باقی بارہ سے تیرہ روپئے اشتہارات کے ذریعہ برابر کئے جاتے ہیں۔

اس میں زیادہ تر اشتہارات سرکاری بھی ہوتے ہیں جو حکومت کی فلاحی اسکیمات‘ ترقیاتی کاموں کے سنگ بنیاد‘ حکومت کے کارناموں پر مشتمل ہوتے ہیں۔ جو عام طور پر سبھی بڑے اخبارات کوحکومت کی جانب سے دئے جاتے ہیں۔ مگر مرکز میں بی جے پی کی نریندر مودی حکومت اقتدار میںآنے کے بعد اس میں بڑے پیمانے پر تبدیلی ائی ہے مرکزی حکومت ان ہی اخبارات کو اشتہار دے رہی ہے جو حکومت کو تنقید کا نشانہ نہیں بناتے۔

 

جبکہ اس سلسلے میں اُردو اخبارات کے ساتھ حکومت کا رویہ قابل تشویش رہا ہے۔جناب ظہیر الدین علی خان ایم ڈی سیاست اُردو ڈیلی اس ویڈیو میں بتارہے ہیں کہ اُردو اخبارات کی آمدنی میں کس حد تک گرواٹ ائی ہے۔

ان کے مطابق سالانہ چالیس لاکھ کی آمدنی گھٹ کر اب دس لاکھ ہوگئی ہے۔ انہوں نے حکومت تلنگانہ کی جانب سے منائے جانے والے تلنگانہ کے یوم تاسیس تقریب کے موقع پر اُردواخبارات کو دئے گئے اشتہارات اور ہندی اخبارات کودئے گئے اشتہارات کا موازنہ کرتے ہوئے کہاکہ ریاست تلنگانہ میں تلگو یا پھر اُردو اخبارات کا عام چلن ہے جبکہ ہندی اخبارات کا مطالعہ کرنے والے بہت کم لوگ ہیں اس کے باوجود حکومت تلنگانہ نے جو اشتہارات یوم تاسیس کے موقع پر جاری کئے ہیں ہندی اخبارات کے مقابلہ اُردو اخبار ات جاری کردہ رقم کافی کم ہے۔

ٹھیک اسی طرح ویب پورٹل ‘ ٹیلی ویثرن چیانلوں کے ساتھ بھی حکومت کا امتیازی سلوک جاری ہے۔

جو حکومت کی تائید وحمایت میں کام کرتے ہیں انہیں کروڑ ہا روپیوں کے اشتہارات جاری کئے جاتے ہیں جبکہ حکومت کی ناکامیو ں کو منظرعام پر لانے والے ذرائع ابلاغ کویہ اشتہار کی اجرائی عمل میں نہیں آتے یا پھر اس کی رقم میں کمی کردی جاتی ہے۔

مشہور صحافی ابھیشار شرما کا یہ ویڈیو ضرور دیکھیں جس میں انہو ں نے ذرائع ابلاغ کی آزاد کے خلاف جاری سازشوں کا پردہ فاش کیاہے۔