ائمہ مساجد کی قلیل ترین تنخواہوں کا سنگین مسئلہ

ہندوستان میں یہ ایک مسئلہ عرصے دراز سے زیر بحث ہے کہ مساجد میں ائمہ کرام کی قلیل ترین تنخواہوں میں اضافہ کس طرح کیا جائے ۔ائمہ کی قلیل تنخواہیں کے حوالہ سے ہر شخص کو افسوس ہے ۔لیکن اس کے حل کی جانب پیش قدمی کوئی نہیں کررہا یا کرنانہیں چاہتا

۔یہ مسئلہ جہاں عام مساجد کمیٹی سے وابستہ ائمہ کا ہے وہیں وقف بورڈ کی مساجد کے ائمہ بھی اس مسئلہ کو لے کرپریشان ہیں۔افسوس کی بات یہ ہے کہ تمام شعبہ میں تنخواہوں کے اضافہ کو جو رفتار ہے اس کے تناظر میں ائمہ کی تنخواہ میں اضافہ کی رفتار کافی کم ہے ۔چنانچہ اگر موازانہ کیا جائے تو عام شعبوں میں گزشتہ دس سال کے دوران تنخواہوں میں ۱۰۰؍ فیصد اضافہ ہوچکا ہے مگر ائمہ کی تنخواہیں ابھی ۲۵؍ فیصد بڑھ پائی ہے ۔اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ملک بھر کے ائمہ امامت کے علاوہ دوسری بھاگ دوڑ کے ذریعہ اپنی بنیادی ضرورتوں کی تکمیل کرپارہے ہیں ۔

اسلامی روایات نے مسجد کوسماج کا مرکز قرار دیا ہے اور خود رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد نبوی کو عبادت کے ساتھ ساتھ جملہ مذہبی ، دعوتی ، سماجی یہاں تک کہ سیاسی امور کے مرکز کے طورپر استعمال کر کے یہ بتایا ہے کہ مسلمانوں کی زندگی میں مسجد مرکزی حیثیت رکھتی ہے اوریہیں سے جملہ امور انجام پانے چاہئے ۔نبی کریمﷺ اور صحابہ کرام نے تو مسجد میں غیر مسلم کو بھی اپنے ساتھ بٹھاکر مختلف امور میں مشورے کئے ہیں۔ہمیں مساجد کی اہمیت او رافادیت کو سمجھنا ہوگا۔اسکے لئے ہمیں ائمہ حضرات کی اہمیت کو قبول کرناہوگا۔

آج صورت حال یہ ہوگئی ہے کہ ہمارے دلوں میں سے مساجد کی عقیدت تو ہے مگر ائمہ کی عقیدت دلوں سے کم ہوتی جارہی ہے ۔جس کا صاف اظہار ہے کہ آج پورے ہندوستان میں چند مساجد کے علاوہ بیشتر مساجد کے ائمہ کی خدمت کا مناسب اعتراف نہیں کیا جاتا ۔ائمہ کرام کی قلیل تنخواہوں او ران پر شدید پابندیوں کو دیکھتے ہوئے یہی کہا جاسکتا ہے کہ ہم ائمہ کی قدر ومنزلت بھولتے جارہے ہیں۔

گزشتہ دنوں ایک سروے میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ ہندوستان کے زیادہ تر ائمہ کی تنخواہیں یا اعزازیہ روزی کمانے والے مزدوروں سے بھی کافی کم ہے ۔صورتحال اس قدر ناگفتہ بہ ہے کہ اس ہوش ربا گرانی میں ائمہ کرام کو اپنی سفید پوشی کا بھرم بنائے رکھنا بھی دشوار ہورہا ہے ۔عجیب بات ہے کہ دنیا کی

تمام ملازمتوں میں اسکیل او رگرانی بھتہ کی بات کی جاتی ہے مگر مدارس او رمساجد کے ملازمین کیلے اسطرح کی باتیں کرنا معیوب قرار دیا جاتا ہے ۔حیرانی کی بات ہے کہ پورے سال ائمہ کو مشکلات کی زندگی گزارنے کے بعد جب رمضان المبارک میں تراویح کے بعد ہدیہ دینے کی بات آتی ہے توکچھ لوگ یہ مسئلہ معلوم کرنے لگتے ہیں کہ حافظ صاحب کو تراویح سنانے کے بدلے ہدیہ دینا جائز ہے یا نہیں؟

قرآن مجید سنانے کے بدلے پیسے دینے کے عدم جواز کی بات ہوسکتی ہے مگر ہدیہ دینے میں کوئی قباحت تونہیں ۔مگر لوگ چاہتے ہیں کہ اسے بھی ختم کردیا جائے ۔