آٹوگراف کلکشن ۔ ایک مشغلہ

میرا کالم سید امتیاز الدین

لڑکپن میں ہر کسی کو کوئی نہ کوئی شوق رہتا ہے ۔ کوئی ڈاک ٹکٹ جمع کرتا ہے کسی کو پرانے سکّوں کا شوق ہوتا ہے ۔ کوئی پرندوں کے پر جمع کرتا ہے ۔ کسی کو کرکٹ یا فٹ بال سے والہانہ لگاؤ ہوتا ہے ۔ عجیب بات ہے کہ ہم کوکھیل کود سے دلچسپی مطلق نہیں تھی ۔ کھیل سے ہماری عدم دلچسپی سے ہمارے اساتذہ فکرمند رہتے تھے کہ کہیںب آگے چل کر ہم بالکل کمزور اور بیمار نہ ہوجائیں ۔ بہت طاقتور تو ہم کبھی نہیں رہے لیکن بیمار بھی نہیں پڑے ۔ جب ہم اپنی صحت کے بارے میں غور کرتے ہیں تو اکبر الہ آبادی کا یہ شعر یاد آتا ہے ۔
کمزور مری صحت بھی رہی کمزور مری بیماری بھی
اچھا جو رہا کچھ نہ کرسکا بیمار پڑا تو مر نہ سکا
خیر بات چل رہی تھی مشغلوں کی ۔ ہم کو شروع سے لوگوں کے دستخط جمع کرنے کا شوق تھا جسے عرف عام میں آٹوگراف کلکشن کہتے ہیں ۔ بڑے بڑے لوگوں تک ہماری رسائی نہیں تھی ۔ اسکول کے اساتذہ اور ہم جماعت بچوں کے دستخط لینے شروع کردئے ۔ ہمارے ایک استاد نے ہم سے کہا ’میاں ، ہمارے دستخطوں میں کیا رکھا ہے ۔ لینا ہے تو مشہور لوگوں جیسے ادیبوں ، شاعروں ، کھلاڑیوں ، سیاست دانوں کے آٹو گراف اور اُن کو سلیقے سے کسی کتاب میں لگاؤ ۔ رفتہ رفتہ تمہارا یہ کلکشن نادر و نایاب ہوجائے گا ۔ آج تم بچے ہو ۔ کل کو جب تم خود سِن رسیدہ ہوجاؤگے تو اپنے جمع کئے ہوئے ذخیرے پر نازکروگے‘‘ ۔ یہ بات ہمارے دل میں بیٹھ گئی ۔

ہماری درسی کتاب میں ایک سبق سر سی وی رامن کے بارے میں تھا ۔ ہم نے سوچا سی وی رامن کو آٹوگراف کے لئے لکھنا چاہئے ۔ ہم نے غلط سلط انگریزی میں ایک خط سی وی رامن کو لکھا ۔ پتہ ہمیں معلوم نہیں تھا لیکن یہ معلوم تھا کہ وہ بنگلور میں رہتے ہیں ۔ ہم نے بس اتنا سا پتہ لکھ کر خط بھیج دیا ۔ ایک ہفتے بعد ایک بڑے سے رجسٹرڈ پوسٹ لفافے میں سر سی وی رامن کا خط آیا جس میں سر سی وی رامن کی دستخط شدہ تصویر تھی اور ساتھ ہی ان کا ایک شفقت آمیز خط بھی ۔ ہماری خوشی کی انتہا نہ رہی ۔ اس سے ہماری حوصلہ افزائی ہوئی ۔ اس کے بعد ہم نے باقاعدہ خط لکھ کر مشاہیر سے آٹوگراف بھیجنے کی درخواست شروع کردی ۔ سی راج گوپال چاری کا نام ہم نے بہت سنا تھا ۔ ہم نے انھیں خط لکھا اور حسب معمول پتے میں سی راجگوپال چاری سابق گورنر جنرل (مدراس) لکھ کر خط بھیج دیا ۔ دو چار دن بعد ان کا جواب آگیا ۔ خاص بات یہ تھی کہ راج گوپال چاری نے نہ صرف پوسٹ کارڈ پر نیک تمناؤں کے ساتھ دستخط کئے تھے بلکہ ہمارا نام اور پتہ بھی خود اپنے ہاتھ سے لکھا تھا ۔ ہمارے ایک ظریف رشتے دار نے اسے دیکھ کر کہا کہ بے چارے کے پاس نہ سکریٹری ہے نہ ٹائپسٹ ۔ دراصل اس سادگی میں بھی راج گوپال چاری کی بڑائی تھی کہ وہ ان چیزوں کی پرواہ نہیں کرتے تھے ۔ ہم نے مولانا ابوالکلام آزاد کو بھی خط لکھا اور انھوں نے بھی خواہش پوری کردی ۔ جواہر لال نہرو کے بارے میں مشہور تھا کہ ان کے پاس اتنا فاضل وقت ہی نہیں ہوتا کہ وہ آٹوگراف دیں ۔ ہم نے سوچا کہ کوئی ایسی ترکیب کی جائے کہ وہ انھیں دلچسپ لگے اور وہ آٹوگراف بھیج دیں ۔ ہم نے لفافے پر بجائے نام اور پتہ لکھنے کے ان کی تصویر چپکادی اور نئی دہلی لکھ دیا ۔ خط انھیں پہنچ گیا اور جواب میں انھوں نے آٹوگراف بھیج دیا ۔

بہت دلچسپ واقعہ اس وقت پیش آیا جب ہم نے پریسیڈنٹ راجندر پرشاد کو آٹوگراف کے لئے خط لکھا ۔ راجندر پرشاد کی سالگرہ 3 ڈسمبر کو ہوتی تھی ۔ ہم نے ہندی میں سالگرہ پر مبارک باد کا خط لکھا اور آٹوگراف کی درخواست کی ۔ راشٹرپتی بھون سے پریسیڈنٹ کی سکریٹری شریمتی گیان وتی دربار کا جواب آیا کہ راشٹرپتی آپ سے ملنا چاہتے ہیں ۔ جون جولائی کے مہینوں میں وہ حیدرآباد میں رہیں گے آپ وقت مقرر کرکے راشٹرپتی نلائم بلارم آیئے اور اپنی آٹوگراف بک ساتھ لایئے ۔ جب ہم کو یہ خط ملا ابھی دسمبر کا مہینہ چل رہا تھا ۔ ہم کو یہ خط پاکر خوشی بھی ہوئی اور تھوڑی سی مایوسی بھی کیونکہ آٹوگراف کے لئے چھ مہینے کا انتظار کرنا پڑرہا تھا ۔ ہم ابھی نویں جماعت کے طالب علم تھے اور راستوں سے واقف بھی نہیں تھے ۔ ہمارے ایک کرم فرما دبیر پورہ میں رہتے تھے ۔ انھوں نے کہا کہ تم میرے پاس آجانا ۔ ہم ٹرین سے الوال چلے جائیں گے ۔ راشٹرپتی بھون وہاں سے قریب ہے ۔ راشٹرپتی جون کے آخر میں آئے اور 6 جولائی 1958 ء اتوار دن کے گیارہ بجے ملاقات کا وقت مقرر ہوا ۔ اس دن موسلادھار بارش ہورہی تھی ۔ ہمارے کپڑے اچھے خاصے بھیگ گئے تھے اور کم عمری کے باوجود شرمندگی ہورہی تھی کہ مجھے ملک کے صدر سے ملنا ہے اور میرے کپڑوں کی کیا حالت ہے ۔ راشٹرپتی نلائم کے پورٹیکو میں کچھ فوجی افسر بیٹھے ہوئے تھے ۔ ڈر سا ہورہا تھا ۔ ہم نے گیان وتی دربار کا خط انھیں دکھایا ۔ انھوں نے کسی سے اطلاع کروائی ۔ ہم کو اندر بلوایا گیا ۔ راجن بابو ایک صوفے پر آلتی پالتی مار کر بیٹھے ہوئے تھے ۔ دوسرے صوفے پر ایک خاتون تھیں جو گیان وتی دربار ہوں گی ۔ ہم نے دونوں کو سلام کیا ۔ راجن بابو نے جواب میں ’جیتے رہو‘ کہا اور میرے بھیگے ہوئے کپڑوں کی پرواہ کئے بغیر ایک صوفے پر بیٹھنے کے لئے کہا ۔ ہم نے اپنی آٹوگراف بک پیش کی ۔ راجن بابو کے پیچھے ایک چوبدار کھڑا تھا ۔ ان کے اشارے پر اس نے انھیں قلم دیا ۔ راجن بابو نے انگریزی ، ہندی اور اردو میں دستخط کئے ۔ پھر کسی کو اشارہ کیا کہ مجھے کافی پلائیں ۔ ہمارے کپڑوں کی وجہ سے صوفہ بھی گیلا ہوگیا تھا ۔ ہم نے کافی پی ، اپنی آٹوگراف بک لی اور پھر دونوں کو سلام کیا ۔ راشٹرپتی نے کہا ’’خوش رہو‘‘ ۔ یہ ملاقات بمشکل پانچ منٹ چلی ہوگی لیکن اس کی یاد آج بھی تازہ ہے ۔

ایسا نہیں ہے کہ جب بھی ہم نے آٹوگراف کے لئے لکھا ہو تو ہر بار کامیابی ملی ہو ۔ سرونسٹن چرچل کو خط لکھا تو ایک چھپا ہوا کارڈ آیا جس میں ایک ہی جملہ تھا ’’سرونسٹن چرچل آپ کے خط کے لئے شکر گزار ہیں لیکن ایسی کئی فرمائشوں کے پیش نظر آپ کی خواہش کی تکمیل ممکن نہیں ہے‘‘ ۔ اسی طرح ملکہ ایلزبتھ بھی کسی کو آٹوگراف نہیں دیتیں ۔ لیکن معذرت کا جواب ضرور آتا ہے ۔
ہرسال اکٹوبر میں نوبل انعامات کا اعلان ہوتا ہے ۔ ہم کو کافی عرصہ تک یہ عادت رہی کہ تمام انعام یافتگان کو سویڈش اکاڈیمی کے توسط سے خط لکھا کرتے تھے اور ان میں سے بیشتر کے جوابات آجاتے تھے ۔ اس طرح کئی نوبل انعام پانے والوں کے آٹوگراف کا ذخیرہ ہوگیا ۔
ہمارے اس شوق میں بعض عجیب تجربات ہوئے ۔ 1960ء میں پوسٹل اسٹرائک ہوئی تھی جو کم و بیش پندرہ دن تک چلتی رہی ۔ ڈاکئے ہڑتال پر تھے ۔ ہمارے محلے کے چند نوجوان جی پی او سے خطوط لاتے اور کسی صاحب کے مکان کے ایک کمرے میں خطوط کا ڈھیر لگادیتے ۔ جن لوگوں کو اپنے خطوط کا انتظار رہتا وہ اس جگہ جاتے اور اپنے اپنے خطوط چُن لیتے ۔پھر بھی کچھ خطوط باقی رہ جاتے ۔ اس طرح اس کمرے میں کچرا سا جمع ہوگیا تھا ۔ ہم کو جب اس کی اطلاع ملی تو ہم بھی اس جگہ گئے اور اپنے خطوط ڈھونڈنے لگے ۔ ہم کو اپنا ایک خط ملا جس میں برٹرینڈ رسل کی دستخط شدہ تصویر تھی ۔ ظاہر ہے کہ یہ بہت نادر آٹوگراف تھا ۔ ہم کو بے حد خوشی ہوئی اور عجیب سا ڈر بھی ہوا کہ اگر خطوط کے ہجوم میں برٹرینڈ رسل کا خط گم ہوجاتا تو ہمارا کتنا نقصان ہوجاتا ۔
ہم نے بابائے اردو مولوی عبدالحق کو آٹوگراف کے لئے لکھا تھا ۔ مولوی صاحب نے دلچسپ خط بھیجا جو ہم یہاں نقل کررہے ہیں

’’عزیز من سلمہ ، آپ کا خط پہنچا ۔ آج کل آٹوگراف کا خبط عام ہے ۔ اگر آپ کو بھی اس کا شوق ہے تو تعجب کی بات نہیں ۔ بہرحال فرمائش کی تعمیل کرتا ہوں‘‘ ۔
خیر طلب
عبدالحق
غور کرنے کی بات ہے کہ عام لوگوں کے لئے ’خبط‘ لکھا اور میرے لئے ’شوق‘ ۔ اس طرح بہت لطیف مزاح پیدا کردیا ۔
اسی طرح نیاز فتح پوری نے لکھا
’’آپ کے جذبۂ خلوص کو دیکھ کر اپنا ایک شعر یاد آگیا
گھڑی گھڑی نہ ادھر دیکھئے کہ دل پہ
ہے اختیار پر اتنا بھی اختیار نہیں
نیاز‘‘
رومانیہ کے قومی شاعر ٹیوڈر آرگیزی نے آٹوگراف کی خواہش پر اپنی ایک نظم ہمارے نام بھیجی جس کا مفہوم تھا ’’سید امتیاز الدین کے نام محبت بھرا پیام جسے میں ایک پرندے کے ذریعہ بخارسٹ کی سرزمین سے بھیج رہا ہوں‘‘ ۔

مدر ٹریسا نے اپنے آٹوگراف کے طور پر لکھا ’دوسروں سے اس طرح محبت کرو جیسی محبت خدا تم سے کرتا ہے‘ ۔ آٹوگراف کے ساتھ انھوں نے وہ متاثرکن دعا بھی روانہ کی جو انھوں نے نوبل انعام کی تقریب میں پڑھی تھی ۔
جوش ، جگر ، فراق ، فیض ، مجروح ، مخدوم ، وجد ، احمد فراز ، جذبی ، مجاز ، سردار جعفری ، کرشن چندر ، بیدی ، احتشام حسین ، آل احمد سرور ، سجاد ظہیر ، رشید احمد صدیقی ، عصمت چغتائی ، قرۃ العین حیدر اور کئی ادیبوں شاعروں کے آٹوگراف ہمارے پاس موجود ہیں ۔ اسی طرح دلیپ کمار ، نوشاد ، امیتابھ بچن ، سچن ٹنڈولکر ، ایم ایف حسین ، غرض ادب ، شاعری ، فلم آرٹ سے وابستہ کئی ہستیوں کے دستخط یا دستخط شدہ تصاویر ہم نے حاصل کیں ۔ پچھلے کچھ برسوں سے یہ شوق مدھم پڑگیا ہے ۔ خط نویسی کم ہوتی جارہی ہے ۔ ای میل اور ایس ایم ایس کا زمانہ ہے ۔ پھر بھی جب ہم تنہائی میں اپنے آٹوگراف کے ذخیرہ کو دیکھتے ہیں تو بڑا سکون ملتا ہے ۔