آصف سابع کا بنارس ہندو یونیورسٹی کو ایک لاکھ کا عطیہ

ڈاکٹر سید داؤد اشرف
آصف جاہی خاندان کے آخری حکمران میر عثمان علی خاں آصف سابع کے دور میں یاستِ حیدرآباد نے زبردست ہمہ جہتی ترقی کی ۔ ان کے عہد میں تمام شعبہ ہائے حیات میں ترقی کی رفتار دیگر آصف جاہی حکمرانوں کے ادوار کی بہ نسبت بہت تیز تھی ۔ یوں تو آصفِ سابع کی نگاہ اور توجہ زندگی کے ہر شعبے پر تھی لیکن انہوں نے تعلیم کے فروغ اور اس کی اشاعت میں غیر معمولی دلچسپی لی ۔ ان کے عہد میں ریاست میں مدارس اور کالجوں کی تعداد میں کئی گنا اضافہ ہوا۔ ریاست میں کوئی یونیورسٹی نہیں تھی جس کی وجہ سے ریاست کے طلبہ کو مدراس اور دوسری جامعات کا رخ کرنا پڑتا تھا ۔ اس کمی اور ضرورت کو جامعہ عثمانیہ کے قیام کے ذریعے پورا کیا گیا جس کی وجہ سے ریاست میں نہ صرف ایک تعلیمی انقلاب رونما ہوا بلکہ زندگی کے دیگر شعبوں میں بھی ایک انقلاب آیا۔ آصف سابع کی تعلیم سے دلچسپی صرف ریاست تک محدود نہیں رہی بلکہ انہوں نے بیرون ریاست کے مدارس ، یونیورسٹیوں اور دیگر تعلیمی اداروں کو بھی فیاضانہ طور پر مدد دی۔ علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کو ریاست حیدرآباد سے جو امداد دی گئی تھی وہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے ۔ سر سید کے خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے اور تعلیمی طور پر ہندوستان کے پسماندہ مسلمانوں کے مقدر کو بدلنے کیلئے بے دریغ سرمایے کی ضرورت تھی ۔ ریاست حیدرآباد ملک کی سب سے بڑی دیسی ریاست ہونے کے باعث جس کا حکمراں مسلمان تھا ، علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کے قیام ، توسیع اور مقررہ نشانوں کے حصول کیلئے خاطر خواہ مالیہ کی فراہم کی اپنی ذمہ داری سے رو گردانی نہیں کرسکتی تھی ۔ ملک کی بعض دوسری جامعات اور ایسی ہی دوسری تحریکوں کی امداد اور سرپرستی کیلئے جہاں ملک بھر میں وسائل لا محدود تھے ، راجاؤں ، مہا راجاؤں ، سرمایہ اداروں اور صنعت کاروں کے خزانوں کے منہ ان کیلئے کھلے تھے ، علیگڑھ کے وسائل محدود تھے ۔ یہاں زمین سنگلاخ تھی جس کی آبیاری جوئے شیر لانے سے کم نہ تھی ۔ اس لئے ریاستِ حیدرآباد کی طرف سے علی گڑھ کی مدد اور تعاون کو فطری امر کی حیثیت حاصل تھی ۔ علاوہ ازیں حیدرآباد سے علیگڑھ جاکر تعلیم حاصل کرنے والوں کی تعداد بھی دیگر علاقوں سے رجوع ہونے والوں کے مقابلے میں نمایاں طور پر زیادہ تھی ۔
علیگڑھ یونیورسٹی کے علاوہ بیرونِ ریاست کی چند اہم اور ممتاز یونیورسٹیوں اور تعلیمی اداروں مثلاً گرو دیوٹیگور کی شانتی نکیتن ، آندھرا یونیورسٹی، بنارس ہندو یونیورسٹی ، بھنڈارکر اورینٹل ریسرچ انسٹی ٹیوٹ اور دوسرے اداروں کو بھی آصف سابع نے گراں قدر عطیے دیئے تھے ۔ سید منظر علی اشہر اپنی کتاب ’’حیدرآباد کی علمی فیاضیاں‘‘ میں لکھتے ہیں۔ ’’ڈاکٹر رابندر ناتھ کی قائم کردہ درس گاہ بول پور کیلئے یکمشت ایک لاکھ روپئے کا عطیہ اواخر 1345 ھ م 1926-1927 ء میں منظور فرمایا گیا ۔ ڈاکٹر صاحب اسی کام کیلئے بطور خاص حیدرآباد تشریف لائے تو سوا لاکھ کا عطیہ عنایت فرمایا گیا ۔ کہتے ہیں کہ سوا دو لاکھ روپئے کے اس عطیے سے شانتی نکیتن میں فارسی زبان کی کرسی قائم کی گئی ‘‘۔ شانتی نکیتن کے علاوہ بنارس ہندو یونیورسٹی اور آندھرا یونیورسٹی کو بھی ایک ایک لاکھ روپئے کے عطیے دیئے گئے تھے ۔ عطیوں کی منظوری کے سلسلے میں جو فرامین صادر ہوئے تھے وہ اسٹیٹ آرکائیوز میں محفوظ ہیں۔ ان یونیورسٹیوں کے علاوہ بھنڈار کر اورینٹل ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کو ایک گیسٹ ہاؤس کی تعمیر اور مہا بھارت کی اشاعت کے لئے ساڑھے سینتیس ہزار اور ساڑھے دس ہزار روپئے منظور کئے گئے تھے۔ اس کی تفصیلات میں نے ایک علحدہ مضمون میں بیان کی ہیں۔ اس مضمون میں بنارس یونیورسٹی کو دیئے گئے عطیہ کی کارروائی کی تفصیلات دی جارہی ہیں جو آرکائیوز کے مستند ریکارڈ کی چھان بین اور تجزیے کا نتیجہ ہیں ۔ بنارس ہندو یونیورسٹی اور انجمن حمایت ِ اسلام کو ریاست حیدرآباد کی جانب سے عطیے دیئے جانے کی نسبت باب حکومت نے اپنے اجلاس منعقدہ 8 بہمن 1348 ف م 12 ڈسمبر 1938 ء میں حسب ذیل قرارداد منظور کر کے آصفِ سابع کے ملاحظے کیلئے روانہ کی تھی ۔ ’’بالاتفاق قرار پایا کہ ہزہائی نس مہا راجا بیکانیر کی آمد کے موقع پر جو بنارس یونیورسٹی کے چانسلر ہیں ، سرکار کی جانب سے پینتیس ہزار کا عطیہ مرحمت فرمایا جانا مناسب ہے ۔ اسی طرح انجمن حمایت اسلام لاہور کے جوبلی کے موقع پر پچیس ہزار کا عطیہ سرکار عالی کی جانب سے مرحمت ہونا مناسب ہے۔ انجمن مذکور کو حسب ارشاد سلطانی اطلاع دی جائے گی کہ بعض وجوہ سے برادران والا شان انجمن کی جوبلی کے موقع پر شریک نہیں ہوسکتے جس کا افسوس ہے ‘‘ ۔
مندرجہ بالا قرارداد پر بعد ’’ملاحظہ‘‘ آصفِ سابع نے یہ حکم جاری کیا‘‘۔ بنارس یونیورسٹی اور انجمن حمایتِ اسلام لاہور دونوں کو تیس تیس ہزار کلدار کا عطیہ دیا جائے تاکہ ہر دو کے عطیے کی رقم مساوی ہو ورنہ پبلک کو اعتراص ہوگا ‘‘ ۔ آصفِ سابع کے اس حکم کی اطلاع دفترِ پیشی سے کاظم یار جنگ نے ایک مراسلے مورخہ 29 شوال 1357 ھ م 22 ڈسمبر 1938 ء کے ذریعہ باب حکومت کو روانہ کی ۔ بنارس یونیورسٹی کو تیس ہزار کلدار عطیہ دینے کے بارے میں آصف سابع کا حکم جاری ہونے کے فوری بعد مہاراجا بیکانیر ہزہائی نس گنگا سنگھ نے جو بنارس یونیورسٹی کے چانسلر بھی تھے تحریری طور پر نمائندگی کی کہ بنارس یونیورسٹی کیلئے ایک بڑا عطیہ منظور کیا جائے ۔ انہوں نے بنارس یونیورسٹی کی امداد کے سلسلے میں ڈسمبر 1938 ء میں آصف سابع کو جو مکتوب تھا اس کا خلاصہ مندرجہ ذیل ہے۔
میں ایک طویل عرصہ سے ہزاگزالٹیڈ ہائی نس سے بنارس یونیورسٹی کے بارے میں گفتگو کرنے اور اس عظیم قومی ادارے کی سرپرستی اور مدد کیلئے درخواست کرنے کا خواہشمند رہا ہوں لیکن مجھے اس بات کا ملال ہے کہ کام کی زیادتی کی وجہ سے میں پہلے ایسا نہ کرسکا ۔ میں کتاب ’’بنارس ہندو یونیورسٹی 1905-1935 ء کا ایک نسخہ روانہ کر رہا ہوں جس کے ذریعہ ہز اگزالٹیڈ ہائی نس کو اس بات کا اندازہ ہوگا کہ اس مدت کے دوران اس یونیورسٹی نے کیا کچھ کیا ہے ۔ میں یونیورسٹی کے قیام سے اس کے ساتھ ہوں اور اس کی غیر معمولی ترقی اور ہمہ جہتی فروغ کو غیر معمولی شکر گزار جذبے کے ساتھ دیکھتا ہوں۔ یہ یونیورسٹی ایک کل ہند ادارہ ہے۔ اس کا اسٹاف اور طلبہ ہندوستان کے تقریباً تمام حصوں بشمول ہندوستانی ریاستوں کی نمائندگی کرتے ہیں ۔ ہز ا گزالٹیڈ ہائی نس کو یہ جان کر مسرت ہوگی کہ دیسی ریاستوں کے کئی حکمرانوں نے بنارس ہندو یونیورسٹی کی سرپرستی اور مدد کی ہے ۔ یونیورسٹی کو پچاس لاکھ روپئے کی فوری ضرورت ہے ۔ اسے امپریل بینک آف انڈیا کا تقریباً تیرہ لاکھ روپئے کا قرض ادا کرنا ہے ۔ یونیورسٹی کو اپنی سالانہ آمدنی میں ایک لاکھ روپئے کا جو خسارہ ہوتا ہے اسے اس کی بھی پابجائی کرنی پڑتی ہے ۔ یونیورسٹی میں انجنیئرنگ کالج ، آیورویدک کالج اور مزید چار ہاسٹل تعمیر کرنے ، زراعتی انسٹی ٹیوٹ اور انجنیئرنگ ورکشاپ کو ترقی دینے ، کامرس کی فیکلٹی قائم کرنے اور ہاسپٹل کو توسیع دینے کا پروگرام ہے ۔ ان کاموں اور دوسرے ضروری امور کی تکمیل کیلئے کم از کم 50 لاکھ روپئے کی رقم اکٹھا کرنے کی ضرورت ہے ۔ آخر میں انہوں نے درخواست کی کہ آصفِ سابع ایک شاندار عطیہ دے کر یونیورسٹی کی مدد فرمائیں۔
بنارس یونیورسٹی کو تیس ہزار روپئے کی امداد منظور کی جا چکی تھی اور بعد ازاں آصف سابع اس امداد میں اضافہ کرنے کیلئے تیار نہیں تھے ۔ چنانچہ ان کا حسب ذ یل حکم کاظم یار جنگ نے مراسلہ مورخہ 5 ذی قعدہ 1357 ھ م 28 ڈسمبر 1938 ء کے ذریعہ باب حکومت کو روانہ کیا ۔
’’بنارس یونیورسٹی کیلئے جو کچھ امداد حال میں منظور ہوئی ہے اس کی اطلاع صیغہ متعلقہ سے بنارس یونیورسٹی کو دے دی جائے ۔ ہزہائی نس کے خط کے جواب میں جو کچھ کہنا ہے مہاراجا آئے بعد بالمشافہ پریسیڈنٹ کونسل کہہ دے سکتے ہیں کہ جو کچھ امداد دی گئی ہے اس سے زائد ممکن نہیں ہے کہ خود ہمارے یہاں بہت سے رفاہ عام کے کاموں کیلئے رقم کی ضرورت ہے‘‘۔
مہاراجا بیکانیر کے خط کے باوجود جب آصف سابع نے یہ حکم جاری کردیا کہ بنارس یونیورسٹی کو تیس ہزار روپئے سے زائد امداد دینا ممکن نہیں ہے تو باب حکومت نے اس کارروائی پر اپنے اجلاس منعقدہ 25 بہمن 1348 ف م 3 ڈسمبر 1938 ء میں مکرر غور کیا اور حسب ذیل اہم قرارداد منظور کی جس میں بنارس یونیورسٹی کو ایک لاکھ کلدار کا عطیہ دینے کی سفارش کی گئی ۔ ’’با ادب عرض کیا جائے کہ جس وقت کونسل (باب حکومت) نے بنارس یونیورسٹی کو پینتیس ہزار روپئے امداد دینے کی سفارش عرض کی تھی اس وقت کونسل کو ان واقعات کا پورا علم نہیں تھا جواب حاصل ہوا ہے۔ بنارس یونیورسٹی کو مہاراجگان جے پور وغیرہ نے کئی کئی لاکھ یکمشت عطیہ دیا ہے اور سالانہ رقم اس کے علاوہ دیتے ہیں ۔ رام پور نے جو ایک چھوٹی ریاست ہے ایک لاکھ کا عطیہ دیا ہے اور چھ ہزار سالانہ دیتی ہے۔ بنارس ہندو یونیورسٹی کی وہی حیثیت ہندوستان میں ہے جو علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کی ہے اور حقیقی معنوں میں ہندوؤں کی یہی یونیورسٹی ہے گو اس میں بہت سے مسلم طلبہ بھی تعلیم پاتے ہیں۔ بحالتِ معروضۂ بالا با ادب یہ عرض کی جرات کی جاتی ہے کہ جو امداد اس یونیورسٹی کو دی جائے اور خصوصا ً ایسی صورت میں جبکہ ہزہائی نس مہاراجا صاحب بیکانیر چانسلر کی سی با اثر ہستی نے استدعا کی ہے تو وہ اس ریاست ابدی مدت کے جو ہندوستان کی سب سے بڑی ریاست ہے ، شایان شان ہونی چاہئے ۔ لہذا کونسل کا یہ معروضہ ہے کہ ایک لاکھ کلدار کا عطیہ یونیورسٹی کو دیا جائے ۔ اس کی ادائیگی زائد از موازنہ ہوگی ۔ اگر بندگان اقدس و اعلیٰ پسند فرمائیں تو جس وقت مہاراجا بیکانیر یہاں آئیں تو حضرت اقدس و اعلیٰ خود ان سے اس عطیے کا ارشاد فرمائیں‘‘۔ صدر اعظم سر اکبر حیدری نے اس کارروائی کی تمام تفصیلات اور باب حکومت کے مکرر اجلاس میں منظورہ قرارداد کو ایک عرض داشت مورخہ 13 ذی قعدہ 1357 ھ م 5 جنوری 1939 ء میں درج کر کے آصفِ سابع کے ملاحظے کیلئے روانہ کی ۔ کونسل کی قرارداد کو منظوری حاصل ہوئی اور اس سلسلے میں آصفِ سابع کا حسبِ ذیل فرمانِ مورخہ 15 ذی قعدہ 1357 ھ جاری ہوا۔ ’’بہ لحاظ واقعات معروضہ عرض داشت کونسل کی رائے کے مطابق ہماری گورنمنٹ کی جانب سے بنارس ہندو یونیو رسٹی کے لئے ایک لاکھ کلدار کا عطیہ منظور کیا جائے ۔ اس کی اطلاع پریسیڈنٹ کونسل ( صدر اعظم) بالمشافہ مہاراجا بیکانیر کو دے دیں تو کافی ہے جس وقت وہ یہاں آجائیں‘‘۔
ابتداء میں آصف سابع نے بنارس ہندو یونیورسٹی کے لئے تیس ہزار کلدار کا عطیہ منظور کیا تھا ۔ اس عطیے کی منظوری کے فوری بعد فراخ دلانہ عطیہ منظور کرنے کیلئے مہاراجا بیکانیر چانسلر بنارس یونیورسٹی کا مکتوب وصول ہوا تھا لیکن آصف سابع اپنے سابقہ فیصلے پر قائم رہے اور انہوں نے اس پر نظر ثانی کرنے سے انکار کر دیا لیکن جب باب حکومت نے اپنی مکرر عرض داشت میں اس کارروائی کے سلسلے میں تفصیلی کیفیت لکھتے ہوئے ایک لاکھ کلدار کی منظوری صادر کرنے کی سفارش کی تو آصف سابع نے بلا تامل اس سفارش کو منطور کرلیا جو اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ اصف سابع اپنے مشیروں کے مناسب اور صحیح مشوروں کو قبول کرنے میں پس و پیش نہیں کرتے تھے۔ وہ ہمیشہ اپنی بات اور فیصلے پر اڑے اور ا ٹل رہنے کی کی بجائے صحیح واقعات کے سامنے آنے پر لچک دار رویہ اپناتے ہوئے اپنے سابقہ فیصلے پر نظر ثانی کرنے کیلئے تیار ہوجاتے تھے ۔ اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ امداد کے سلسلے میں وہ کوئی تحفظِ ذہنی نہیں رکھتے تھے۔