آصفجاہ ہشتم نواب میر محبوب علی خاں صدیقی کے کارنامے نظرانداز

103 ویں برسی بڑے پیمانے پر منانے سے گریز، خداترس سابق حکمراں کی یادگار قائم کرنے کا مطالبہ

حیدرآباد ۔ 30 اگست ۔ حیدرآباد دکن ہندوستان کی تمام ریاستوں میں سب سے دولتمند ترین ریاست رہی ہے۔ یہاں کے آصفجاہی حکمران دنیا کے متمول حکمرانوں اور شخصیتوں کی فہرست میں سرفہرست رہا کرتے تھے۔ اس قدر دولت و حشمت جاہ و جلال اور اقتدار و اثر کے باوجود ان حکمرانوں کی رعایا پروری، خداترسی، سادگی مثالی ہوا کرتی تھی جس کے نتیجہ میں تاریخ میں ان آصفجاہی حکمرانوں کا سنہرے الفاظ میں ذکر ملتا ہے۔ نظام ہشتم نواب میر محبوب علی خاں صدیقی بہادر سے کون واقف نہیں۔ متحدہ آندھراپردیش کے کئی اہم ترقیاتی پراجکٹس کا کریڈٹ ان ہی کے سر جاتا ہے۔ واضح رہیکہ ریاست حیدرآباد دکن مہاراشٹرا کرناٹک اور ٹاملناڈو کے کچھ حصوں تک بھی پھیلی ہوئی تھی اور ریاست میں مشرق سے لیکر مغرب اور شمال سے لیکر جنوب تک عوام میں خوشحالی پائی جاتی تھی۔ اس دور میں غریب کو بھی پیٹ بھر کھانا میسر ہوجاتا تھا لیکن سقوط حیدرآباد دکن کے بعد سب کچھ بدل گیا۔ لسانی بنیاد پر ہماری ریاست کو تقسیم کردیا گیا۔ اس میں تعصب و فرقہ پرستانہ ذہنیت کا اہم رول رہا۔ ہم بات کررہے تھے نواب میر محبوب علی خاں صدیقی بہادر کی، 17 اگست 1866 کو نواب افضل الدولہ کے گھر پیدا ہوئے۔ اس خداترس اور رعایا پرور حکمراں کا صرف 45 برس کی عمر میں 29 اگست 1911 کو انتقال ہوا۔ 1869-1911 دکن پر حکومت کرنے والے محبوب علی پاشاہ کی تاریخی مکہ مسجد کے ایک حصہ میں دیگر حکمران دکن کی قبور کے پہلو میں تدفین عمل میں آئی۔ جہاں تک ریاست بالخصوص تلنگانہ میں ترقیاتی پراجکٹس تحقیقی و علمی ادارہ کتب خانوں باغات خوبصورت ترین عمارتوں ریلوے محکمہ پولیس اور انفراسٹرکچر کا سوال ہے نواب میر محبوب علی خان کے دور میں ہی ان کا آغاز ہوا تھا۔ زراعت، عمارات و شوارع عامہ، صنعت و حرفت، طبی نگہداشت، منصوبہ بندی، حمل و نقل باغبانی، اس کے فروغ میں نواب میر محبوب علی خاں صدیقی بہادر کا اہم کردار رہا ہے۔ 1869 میں ان کے ہی دورحکمرانی میں نظام اسٹیٹ ریلوے کا قیام عمل میں آیا جس سے حیدرآباد تا ممبئی تجارتی راہداری کھولنے میں مدد ملی۔ 1884 میں انہوں نے ہی محکمہ پولیس و محابس قائم کیا۔ آصفیہ لائبریری جو آج اسٹیٹ سنٹرل لائبریری کی حیثیت سے موجود ہے 1884میں اس کے قیام کے ذریعہ آنے والی نسلوں کیلئے ریاست کا سب سے بڑا کتب خانہ فراہم کیا۔ 1872ء میں قائم کردہ مدرسہ عالیہ بھی ان ہی کے دور حکمرانی کی یادگار ہے۔ 1884 میں محبوب علی پاشاہ کے دور میں ہی سرکاری زبان فارسی کی بجائے اردو کی گئی۔ تحقیق و تالیف اور ترامیم کیلئے دنیا بھر میں کبھی مشہور رہے۔ دائرۃ المعارف کا 1892 میں قیام عمل میں لاکر اس انسانیت نواز حکمراں نے تعلیمی تحقیق کو ریاست میں ایک نئی جہت عطا کی۔ اسی طرح باغ عامہ (پبلک گارڈن) عوام کیلئے کھولنے کا اعزاز بھی ان ہی کو جاتا ہے۔ نواب میر محبوب علی خاں نے انتظامی اصلاحات کیلئے 1874 میں قانونچے مبارک متعارف کروایا جس کے ذریعہ وزراء و امراء اور حکام کے اختیارات متعین کئے گئے۔ آج ہم قانون ساز اسمبلی کی جو عظیم عمارت دیکھتے ہیں، 1905 میں اس کا سنگ بنیاد بھی رکھا گیا تھا۔ اسی طرح 1908 میں قائم نظام آبزروٹری بھی محبوب علی پاشاہ کی کئی ایک یادگاروں میں سے ایک یادگار تھی۔ محبوب علی پاشاہ کی رعایا پروری اور خداترسی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہیکہ انہیں ہمیشہ اپنی رعایا کی فکر دامن گیر رہا کرتی تھی۔ انہوں نے بلالحاظ مذہب و ملت عوام کے ساتھ مساویات کا سلوک رکھا۔ 1901 میں مہاراجہ کشن پرشاد کو اپنا وزیراعظم مقرر کرتے ہوئے انہیں یمن السطان کا خطاب عطا کیا اور جب ستمبر 1908 میں رد مسیٰ میں طغیانی آئی اس وقت اپنی رعایا کی تباہی و بربادی دیکھ کر ان کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے۔ محبوب علی پاشاہ نے اپنی مصیبت زدہ رعایا کی دلجوئی میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی۔ انہوں نے اس وقت لوگوں کی بے بسی ان کی تڑپ کو دیکھ کر جو الفاظ ادا کئے تھے ہندوستان کی تاریخ میں شاید کسی دوسرے بادشاہ یا حکمراں کی زبان سے وہ الفاظ ادا نہیں ہوئے ہوں گے۔ انہوں نے کہا تھا وہ آپ (عوام) کے خدام کے گھر کے دروازہ آپ کیلئے کھلے ہیں۔ انہوں نے طغیانی کے متاثرین کیلئے جو 10 لنگرخانہ قائم کئے تھے، ان میں 5 ہندوؤں کیلئے اور 5 مسلمانوں کیلئے مخصوص تھے۔ اس وقت طغیانی کے متاثرین کی مدد کیلئے جہاں حکومتی خزانے سے 7 لاکھ روپئے خرچ کئے گئے وہیں تاریخی کتب میں آیا ہیکہ خود محبوب علی پاشاہ نے اپنی جیب سے 4.5 لاکھ روپئے بطور عطیہ پیش کیا گیا تھا اور مسلسل تین ماہ تک 80 ہزار لوگوں کیلئے طعام کا انتظام کیا جاتا رہا۔ 1888 میں کوتن وکٹوریہ کے بیٹے ڈیوک آف کناٹ نے حیدرآباد کا دورہ کیا تھا اس دورہ کی یاد میں 1890 میں ایک شاندار یونانی ہاسپٹل قائم کیا گیا۔ اسی طرح 1910 میں محکمہ برقی، 1907 میں لڑکیوں کیلئے علحدہ اسکول و محبوبہ گرلز ہائی اسکول، 1905 میں وکٹوریہ میموریل یتیم خانہ دلسکھ نگر کا قیام بھی نواب میر محبوب علی خاں کے متعدد کارناموں میں شامل ہیں۔ انہوں نے حیدرآباد میں طبی تحقیق کے فروغ کی حوصلہ افزائی کی اس سلسلہ میں سر رونالڈ راس کی جانب سے یہ انکشاف کرنا کہ ملیریا مچھر کے نتیجہ میں ہوتا ہے دنیا کے سامنے آیا۔ نواب محبوب علی خاں ایک بہادر شکاری اور ماہر نشانہ باز تھے۔ وہ ہوا میں سکہ کو بلند کرکے اسے گولی کا نشانہ بنایا کرتے تھے۔ وہ سانپ ڈسنے سے متاثرہ لوگوں کا علاج بھی کرتے تھے۔ چنانچہ رات دیر گئے عوام انہیں نیند سے بیدار کردیتی تھی۔ بہرحال تلنگانہ میں اس خداترس اور رعایا پرور حکمراں کو بھلا دیا گیا۔ 103 ویں برسی کے موقع پر تلنگانہ موومنٹ فاونڈرس فورم اور وائس آف تلنگانہ جیسی تنظیمیں ہی ان کی برسی مناتی ہیں جبکہ اس قدآور شخصیت کی برسی سرکاری پیمانے پر منانی چاہئے۔ کیپٹن پانڈو رنگاریڈی کے مطابق حکومت کو چاہئے کہ وہ نواب میر محبوب علی خاں کی یادگار قائم کرتے ہیں۔ mriyaz2002@yahoo.com