آر کے لکشمن کا عام آدمی (مشہور کارٹونسٹ آر کے لکشمن کی یاد میں بطور خراج عقیدت)

میرا کالم مجتبیٰ حسین
صدر جمہوریہ کے آر نارائنن نے پچھلے دنوں شہرہ آفاق کارٹونسٹ آر کے لکشمن کے کارٹونوں میں پیش کئے جانے والے ’’عام آدمی‘‘ کے مشہور و معروف کردار کے آٹھ فیٹ اونچے مجسمے کی نقاب کشائی پونے میں انجام دی ۔ یہ پہلا موقع ہے جب ایک کارٹونسٹ کے کردار پر مبنی ایک مجسمے کی نقاب کشائی عمل میں آئی ہے ۔ ہمارے ہاں سیاسی رہنماؤں اور ممتاز شخصیتوں کے مجسموں کی نقاب کشائی تو آئے دن ہوتی رہتی ہے لیکن آج تک کسی ’’عام آدمی‘‘ کے مجسمے کی نقاب کشائی کی نوبت نہیں آئی تھی ۔ اسے آر کے لکشمن کے فن کا کمال نہ کہیں تو اور کیا کہیں کہ بالآخر اب ہمارے ’’عام آدمی‘‘ کو بھی ایک شکل و صورت عطا کی جارہی ہے اور اس کے خد و خال کو (چاہے وہ جیسے بھی ہوں) نمایاں کیا جارہا ہے ۔ آر کے لکشمن کے اس عام آدمی کا کوئی نام نہیں ہے کیونکہ عام آدمی کا کوئی نام نہیں ہوتا ۔ خیر سے اب اس کی عمر پچاس برس کی ہوگئی ہے ۔ پچاس برس پہلے وہ جیسا تھا آج بھی ویسا ہی ہے ۔ ان پچاس برسوں میں ہمارے رہنما بدلے ، ان کے کردار بدلے ، ان کے لباس بدلے ، ان کے حلیے بدلے ، ان کے عہدے بدلے ، ان کے نظریات بدلے ، ان کی پارٹیاں بدلیں ، ان کی اقدار بدلیں لیکن لکشمن کا ’’عام آدمی‘‘ جوں کا توں ہے ۔

اس کا لباس بھی وہی ہے جو آج سے پچاس برس پہلے تھا ۔ اس نے ایک سیدھی سادی دھوتی پہن رکھی ہے ۔ اس دھوتی پر ایک کوٹ بھی پہن رکھا ہے ، جس کے اوپر کے بٹن تو لگے ہوئے ہیں لیکن نچلے بٹن کھلے ہوئے ہیں جوتا بھی ایسا پہن رکھا ہے جسے دیکھ کراندازہ ہوتا ہے کہ جوتیاں چٹخانا کس کو کہتے ہیں ، اس کے سر پر بال تو نہیں ہیں البتہ کنپٹی کے اوپر کچھ بال ضرور ہیں ۔ بال اتنے کم ہیں کہ انہیں آسانی سے جمایا اور سجایا جاسکتا ہے ، لیکن پھر بھی ایک پریشان حال آدمی کے بالوں کی طرح بکھرے ہوئے ہیں ۔ اس کی مونچھیں بھی ہیں جن کے بال زیادہ بکھرے ہوئے نہیں ہیں کیونکہ کوئی بھی آدمی (چاہے وہ عام آدمی ہی کیوں نہ ہو) اپنی مونچھوں کو نیچی ہوتے دیکھنا نہیں چاہتا ۔ لکشمن کے کارٹونوں کے عام آدمی کی ساری خوبیاں اس کے چہرے میں پوشیدہ ہیں ۔ اس کی آنکھیں حیرت و استعجاب کا ایک عجیب وغریب منظر پیش کرتی ہیں ۔ اس کا چہرہ عزم اور حوصلے کا آئینہ دار ہے ۔ ہزاروں مشکلات اور مصائب کے باوجود اس کا چہرہ زندہ رہنے کی آرزو سے معمور نظر آتا ہے ۔ مختلف کارٹونوں میں اس عام آدمی کے چہرے کے اتار چڑھاؤ میں فرق ضرور نظر آتا ہے ، لیکن اس کے ہونٹ ہمیشہ بند رہتے ہیں ۔ پچاس برسوں میں لکشمن کے اس عام آدمی نے نہ تو اپنی زبان کھولی ،نہ کسی بات پر مسکرایا اور نہ ہی کبھی قہقہہ لگایا ۔ اپنے اطراف پیش آنے والے مضحکہ خیز ، سنگین پر آشوب اور اول جلول واقعات کو اپنی پھٹی پھٹی آنکھوں سے دیکھتا توضرور ہے لیکن کبھی اپنا منہ نہیں کھولتا ۔ یہ ضرور ہے کہ اس کے اطراف جو کردار دکھائی دیتے ہیں وہ سب کے سب بولتے ہیں ۔ اس کی بیوی بولتی ہے (کیونکہ بیویوں کا کام ہی بولنا ہوتا ہے) سرکاری افسر بولتے ہیں (اس لئے کہ انھیں بولنے کی تنخواہ دی جاتی ہے) رہنما بولتے ہیں (اس لئے کہ انہیں جھوٹ بولنے کی عادت ہوتی ہے) دانشور بولتے ہیں (کیونکہ انھیں بلاوجہ بولنے کی مشق ہوتی ہے) کبھی کبھار مفلس ، بے بس اور مظلوم آدمی بھی بولتا ہے (یہ اور بات ہے کہ کوئی اس کی بات کو نہیں سنتا) جب اتنے سارے لوگ بول رہے ہوں تو ایسے میں لکشمن کا عام ’آدمی‘ بالکل خاموش رہتا ہے ۔ وہ اپنی زبان سے ایک لفظ بھی نہیں بولتا ۔ گویا وہ متوسط طبقے کے صبر و ضبط ، تحمل اور قوت برداشت کا آئینہ دار ہے ۔ وہ ایک ایسا خاموش تماشائی ہے جس کی خاموشی جب بولتی ہے تو لفظ تک کانپ جاتے ہیں:

خموشی گفتگو ہے بے زبانی ہے زباں میری
لکشمن کا عام آدمی پچھلے پچاس برسوں سے خاموش ہے ۔ اس کی بے نور اور بے بس آنکھوں نے پچاس برس میں کیا نہیں دیکھا ۔ سیاستدانوں کی دھاندلیاں ، جرائم پیشہ افراد کا بڑھتا ہوا اثرو رسوخ ، سرکاری افسروں کی عدم کارکردگی اور رشوت ستانی ،معیار تعلیم کا زوال ، تاجروں کی منافع خوری ، ملاوٹ اور بے ایمانی ، غریبوں کی زبوں حالی ۔ اتنا سب کچھ دیکھ کر بھی وہ خاموش ہے ۔ اس لئے کہ اس کے اطراف جو کچھ ہورہا ہے اس کی اجازت کے بغیر ہورہا ہے ۔ نہ وہ ان حالات کا ذمہ دار ہے اور نہ ہی حالات اس کے قابو میں ہیں ۔ ایسے میں وہ بول کر کیا کرے ۔ اپنے لفظوں کو کیوں ضائع کرے ۔ بات بھی کھوئی التجاکرکے والا معاملہ ہے ۔

اس لئے وہ چپ چاپ سب کچھ برداشت کررہا ہے ۔ زندگی اس کے سامنے جو مسائل بھی پیش کرتی ہے اس سے وہ نبرد آزما ہوتا چلا جاتا ہے ۔ بڑی طاقتوں کی ریشہ دوانیوں ، نیوکلیئر جنگ کے بڑھتے ہوئے خطرات ، انسانیت کے تاراج ہونے کے اندیشوں ، سیاستدانوں کی بے عقیدگی ، ان کی دھاندلیوں اور سرکاری افسروں کی بے حسی کو وہ خوب سمجھتا ہے لیکن اس کے لئے سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ بجلی باربار کیوں فیل ہوجاتی ہے ۔پانی کی سربراہی کیوں بند ہوجاتی ہے ، اشیاء کی قیمتیں کیوں بڑھ جاتی ہیں ۔ اس کے گھر کے آگے کوڑے کرکٹ کے ڈھیر کیوں پڑے رہتے ہیں ، ٹریفک جام کیوں ہوجاتا ہے ۔ اس کے ان ہی چھوٹے موٹے مسئلوں کو لے کر لکشمن جب اپنے عام آدمی کے پس منظر میں اپنے نقطہ نظر کو پیش کرتا ہے تو عام آدمی تھوڑی دیر کے لئے ہی سہی اپنے مسائل کی سنگینی کو بھول جاتا ہپے ۔ اسے یہ احساس ہوتا ہے کہ بے حسوں اور ظالموں کی اس بھیڑ میں لکشمن کی شکل میں اس کا ایک مونس و غنخوار موجود ہے ۔ لیکن مونس و غمخوار اس غم زدہ کے غم کا مداوا تو نہیں کرسکتا تاہم وہ اس کے غم کے بوجھ کو ہلکا ضرور کرسکتا ہے اور لکشمن کا یہی سب سے بڑا کارنامہ ہے ۔
آر کے لکشمن کے کارٹونوں کو ہم پچھلے پچاس برس سے نہایت پابندی کے ساتھ دیکھ رہے ہیں اور وہ ہمارے پسندیدہ کارٹونسٹوں میں سے ہیں بلکہ ہم تو انھیں دنیا کا ایک عظیم کارٹونسٹ سمجھتے ہیں ۔ ملک کے کئی اہم کارٹونسٹوں سے ہماری شخصی ملاقات رہی ہے ۔ سدھیر دار ، رنگا ، سدھیر تلنگ ، سوشیل کالرا ، عزیز کارٹونسٹ مرحوم وغیرہ کے علاوہ عہد ساز کارٹونسٹ شنکر سے ان کی عمر کے آخری زمانے میں ہمیں قربت حاصل رہی ہے ۔ شنکر کے چلڈرنس بک ٹرسٹ میں ہمیں اپنے سرکاری کام کے سلسلے میں اکثر جانا پڑتا تھا ۔ وہ ہمیں بے حد عزیز رکھتے تھے اور انھوں نے اپنے کارٹونوں کا ایک بیش قیمت البم بھی اپنے آٹوگراف کے ساتھ ہمیں دیا تھا ، جو آج بھی ہمارے پاس محفوظ ہے ۔ یہ ایک عجیب بات ہے کہ اپنے محبوب کارٹونسٹ لکشمن سے کبھی ہماری شخصی ملاقات نہیں ہوئی ۔ چالیس برس پہلے ایک بار انھیں حیدرآباد کے اورینٹ ہوٹل میں دیکھا تھا ، البتہ ان سے ملنے کی ہمت نہیں ہوئی ۔ تاہم ہمارے صحافی دوست اور ساتھی منّور علی نے آر کے لکشمن سے نہ صرف ملاقات کی تھی بلکہ ’’سیاست‘‘ کے لئے ایک انٹرویو بھی لیا تھا ۔ لکشمن کا ایک اسکیچ بھی اس انٹرویو کے ساتھ ’’سیاست‘‘ میں چھپا تھا ۔ لکشمن کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ اپنی دنیا میں مگن رہتے ہیں اور لوگوں سے کم ہی ملتے ہیں ۔ یوں بھی وہ ہر دم اپنے ’’عام آدمی‘‘ کے ساتھ رہنے کو ترجیح دیتے ہیں ۔ ہمیں یہ کہنے میں کوئی تامّل نہیں کہ ہم ٹائمس آف انڈیا کو صرف لکشمن کے کارٹونوں کی وجہ سے خریدتے ہیں ۔ لمبے عرصے کے لئے ملک سے باہر بھی جاتے ہیں تو واپس آتے ہی لکشمن کے سارے پچھلے کارٹونوں کو دیکھتے ہیں ۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ لکشمن کی ڈرائنگ میں وہ بات نہیں ہوتی جو دیگر ماہر کارٹونسٹ کے ہاں پاتی جاتی ہے ۔

وہ اپنی بات اس عبارت میں کہہ جاتا ہے جو کارٹون کے نیچے چھپتی ہے ۔ چاہے کچھ بھی ہو لکشمن نے اس ملک کے سیاستدانوں ، سرکاری افسروں ، دانشوروں ، اسمگلروں اور تاجروں کو جتنا سمجھا ہے اتنا کسی نہ نہیں سمجھا ۔ ملک کی نبض لکشمن کے ہاتھوں میں دکھائی دیتی ہے ۔ اگر ہمارے حکمرانوں کو وہ ادراک حاصل ہوجائے جو لکشمن کو حاصل ہے تو شاید اس ملک میں عام آدمی کے مسائل حل ہوجائیں ۔ لکشمن کے لاتعداد کارٹونوں میں سے اب ہمیں اس کے کچھ کارٹون یاد آنے لگے ہیں ۔ لکشمن کا عام آدمی اپنی بیوی کے ساتھ ایک ہوٹل میں کھانا کھارہا ہے ۔ اتنے میں اس کے کھانے میں سے ایک مردہ جھینگر نکل آتا ہے ۔ اس پر اس کی بیوی تبصرہ کرتی ہے ’’بیچارے جھینگر نے غالباً یہ کھانا کھالیا تھا ، تبھی تو مرگیا‘‘ ۔ سرکاری ملازمین کا ایک احتجاجی جلوس جارہا ہے ۔ ملازمین کے ہاتھوں میں ’’تنخواہ بڑھاؤ ۔ مہنگائی الاؤنس بڑھاؤ ، ہمارا بھتہ بڑھاؤ‘‘ جیسی تختیاں ہیں ۔ لکشمن کا عام آدمی سڑک کے کنارے کھڑا جلوس کو دیکھ رہا ہے ۔ اس پر ایک احتجاجی ملازم اسے دیکھ کرکہتا ہے ’’افسوس کہ یہ بیچارہ ہمارے جلوس میں شامل نہیں ہوسکتا کیونکہ یہ تو اب تک بے روزگار ہے‘‘ ۔ ٹریفک کے مسئلہ پر لکشمن نے بے شمار کارٹون بنائے ہیں ۔ ایک کارٹون میں ایک موٹرنشین شخص عام آدمی سے کہتا ہے ’’خدا کے فضل سے میرے پاس ایک موٹر ہے لیکن بدقسمتی سے میرے پاس وہ سڑک نہیں ہے جس پر میں یہ موٹر چلاسکوں‘‘ ۔ چھوٹی چھوٹی باتوں کو لے کر بڑا طنز کرنا لکشمن کا خاصّہ ہے ۔
(9 جنوری 2002ء)