آدھار ڈاٹا پولیس کو فراہم کرنے پر مرکز کا غور سے اتفاق

مرکزی منسٹر آف اسٹیٹ داخلہ ہنس راج آہیر کا بیان ۔ ڈائرکٹرس آف فنگر پرنٹس بیورو کانفرنس سے خطاب
حیدرآباد 21 جون ( پی ٹی آئی ) مرکزی حکومت آدھار ڈاٹا کو پولیس کو فراہم کرنے کی درخواست کا جائزہ لے گی تاکہ پہلی مرتبہ جرم کرنے والے افراد کے معاملات کا پتہ چلایا جاسکے اور نامعلوم نعشوں کی شناخت ہوسکے ۔ مرکزی منسٹر آف اسٹیٹ داخلہ ہنس راج آہیر نے آج یہ بات بتائی ۔ انہوں نے 19 ویںآل انڈیا کانفرنس ڈائرکٹرس آف فنگر پرنٹس بیورو کی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے یہ بات کہی ۔ انہوں نے کہا کہ آدھار اطلاعات کے تبادلہ کو تقسیم کرنے کی تجاویز اور قیدیوں کی شناخت کے قانون پر ان کی وزارت میں غور کیا جائیگا ۔ وزیر موصوف نیشنل کرائم ریکارڈز بیورو کے ڈائرکٹر ایش کمار کی جانب سے پیش کی گئی تجویز پر رد عمل کا اظہار کر رہے تھے جو انہوں نے اس تقریب میں پیش کی تھی ۔ ان کا کہنا تھا کہ اس مقصد کیلئے آدھار ڈاٹا تک پولیس کی محدود رسائی کو یقینی بنایا جانا چاہئے ۔ مسٹر آہیر نے یہ بھی کہا کہ فنگر پرنٹس بیورو میں ڈاٹا اسٹوریج کی صلاحیت میں اضافہ کیا جانا چاہئے اس کے علاوہ اس سہولت کو عصری بنایا جانا چاہئے جس پر حکومت ترجیحی بنیادوں پر غور کریگی ۔ انہوں نے کہا کہ فنگر پرنٹس سائنٹفک ثبوت ہے جسے تحقیق کنندگان قابل بھروسہ سمجھتے ہیں اور عدلیہ میں بھی اسے قبول کیا جاتا ہے کیونکہ یہ مکمل اور موثر فارنسک طریقہ کار ہے ۔ اس کو استعمال کرتے ہوئے جرائم کی شرح میں کمی کی جاسکتی ہے اور سزا دلانے کی شرح میں اضافہ کیا جاسکتا ہے ۔ بعد ازاں جب نامہ نگاروں نے ان سے آدھار ڈاٹا فراہم کرنے سے متعلق این سی آر بی سربراہ کی تجویز سے متعلق سوال کیا تو وزیر موصوف نے کہا کہ م اس کی کوشش کرینگے ۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ تجویز اہمیت کی حامل ہے ۔ مسٹر ایش کمار نے اپنی تقریر میں کہا تھا کہ فی الحال ملک میں ہر سال 50 لاکھ مقدمات کا اندراج ہوتا ہے اور بیشتر جرائم پہلی مرتبہ جرم کرنے الے افراد سے سرزد ہوتے ہیں ۔ ان کی انگلیوں کے جو نشان ہوتے ہیں وہ پولیس میں موجود ہیں ہوتے ۔ انہوں نے کہا کہ ضرورت اس بات کی ہے کہ آدھار ڈاٹا تک پولیس کی رسائی کو یقینی بنایا جاسکے تاکہ تحقیقات میں مدد مل سکے ۔ انہوں نے کہا کہ یہ ضروری ہے کیونکہ ہرسال 80 سے 85 فیصد مجرمین ایسے ہوتے ہیں جو پہلی مرتبہ جرم کا ارتکاب کرتے ہیں۔ تاہم یہ لوگ جرم کا ارتکاب کرتے ہوئے اپنی انگلیوں کے نشان چھوڑ دیتے ہیں ایسے میں آدھار تک پولیس کی محدود رسائی ضروری ہے تاکہ ہم انہیں گرفتار کرسکیں۔ اسی طرح زائد از 40,000 لاوارث یا ناملعوم نعشیں بھی ہر سال دستیاب ہوتی ہیں۔ آدھار تک رسائی کے ذریعہ ان کی شناخت ممکن ہوسکے گی اور انہیں ان کے لواحقین کو سونپا جاسکے گا ۔ انہوں نے کہا کہ ان دو مقاصد کیلئے ہمیں آدھار ڈاٹا تک محدود رسائی یقینی بنانی ہوگی جس سے تحقیقات میں مدد مل سکے گی ۔ انہوں نے کہا کہ وزارت داخلہ کی فوری مداخلت ایک اور مسئلہ میں بھی درکار ہے اور وہ یہ کہ قیدیوں کی شناخت کے قانون میں ترمیم کی جائے تاکہ عصری بائیو میٹرکس جیسے آئرس ‘ وینس دتخط اور آواز بھی حاصل کی جاسکے ۔