’آج میرے والد کی جان گئی ، کل کس کے والد جان گنوائیںگے‘

چیف منسٹر صرف ’’گائے گائے گائے ‘‘کہنے میں مصروف ، مہلوک انسپکٹر کے بیٹے اور بہن کا ردعمل
بلندشہر۔ 4 ڈسمبر (سیاست ڈاٹ کام) دادری میں ستمبر 2015ء کے دوران ہجومی تشدد میں اخلاق احمد کو وحشیانہ انداز میں مار مار کر ہلاک کئے جانے کے واقعہ کی تحقیقات کرنے والے پولیس انسپکٹر سبودھ کمار سنگھ کی گزشتہ روز شرپسندوں کی فائرنگ و زدوکوب میں ہلاکت پر ملک بھر میں غم و غصہ کا اظہار کیا جارہا ہے۔ مہلوک انسپکٹر کے بیٹے نے کہا کہ ’’میرے والد چاہتے تھے کہ میں ایک ایسا اچھا شہری بنوں جو منصب کے نام پر سماج میں تشدد نہیں بھڑکاتا لیکن آج میرے والد ہی ہندو ۔ مسلم تنازعہ میں اپنی جان سے محروم ہوگئے۔ کل کس کے والد اپنی جان گنوائیں گے؟ مہلوک پولیس افسر کی بہن نے کہا کہ ’میرے بھائی اخلاق کیس کی تحقیقات کررہے تھے اور اس وجہ سے ہلاک کردیئے گئے۔ یہ پولیس کی سازش ہے۔ انہیں (سبودھ کمار سنگھ کو) شہید قرار دیا جانا چاہئے اور ان کی یادگار تعمیر کی جائے۔ ہمیں پیسے نہیں چاہئے۔ چیف منسٹر صرف گائے گائے گائے پکارتے پھر رہے ہیں۔ اترپردیش کے سابق وزیر اور سماج وادی پارٹی لیڈر اعظم خاں نے کہا کہ ’’اگر مردہ مویشی کا ڈھانچہ پایا گیا تو پولیس کو یہ تحقیق کرنا چاہئے تھا کہ یہ ڈھانچہ آخر آیا کہاں سے کیونکہ اس مخصوص علاقہ میں اقلیتوں کی آبادی نہیں ہے‘۔ کانگریس کے سینئر لیڈر کپل سبل نے کہا کہ ’یہ انتہائی افسوسناک اور قابل رحم حالت ہے کہ اخلاق احمد کیس کی تحقیقات کرنے والے پولیس انسپکٹر پولیس کو ہی ہجومی تشدد میں ہلاک کردیا گیا۔ ان افراد کو قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت کس نے دی تھی؟ چیف منسٹر یوگی آدتیہ ناتھ اپنی ریاست کی صورتحال دیکھنے کے بجائے تلنگانہ جارہے ہیں اور زہر پھیلا رہے ہیں‘۔

میرے والد مذہبی تشدد کے مخالف تھے: انسپکٹر کا بیٹا
لکھنؤ ۔ 4 دسمبر (سیاست ڈاٹ کام) ہجومی تشدد میں ہلاک ہونے والے پولیس انسپکٹر کے بیٹے نے الزام عائد کیا کہ بلند شہر میں مبینہ طور پر ذبیحہ گاؤ کے خلاف پھوٹ پڑنے والے تشدد میں ان کے والد ہلاک ہوگئے جو ایک اچھے شہری تھے اور جو مذہبی تشدد اور مشتعل ہونے کے مخالف تھے۔ انہوں نے اپنی زندگی اس ہندو مسلم تنازعہ میں ضائع کردی۔ ابھیشیک سنگھ نے جن کے والد سبودھ سنگھ کی اس ہجومی تشدد میں ہلاکت واقع ہوئی تھی، کہا کہ وہ 2015ء میں شہری محمد اخلاق کے بیف استعمال کرنے کی افواہ پر ہلاک ہونے کی تحقیق کرنے کے بارے میں افواہ پھیلائی گئی ہے کیونکہ وہ ایک ملازم پولیس تھے جو ہجوم تشدد میں ہلاک ہوگئے۔ انہوں نے اسے ایک سازش قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ میرا بھائی اخلاق ہجومی تشدد میں ہی ہلاک ہوا تھا اور یہ پولیس کے خلاف ایک سازش تھی۔ دریں اثناء ایک نوجوان کے ارکان خاندان نے جو ہجومی تشدد کے دوران ہلاک ہوا ہے، ایک رکن خاندان کو ملازمت اور مہلوک کی ہلاکت پر معاوضہ کی ادائیگی کا مطالبہ کیا ہے۔